چلو خوش فہمیوں کا سحر تو ٹوٹا کہ جی امریکہ اپنا جگری یار ہے۔ باراک حسین اوباما نے وہ سلوک کیا ہے کہ پاکستان نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو پاکستان کیلئے آنے والا وقت عبرتناک ہو گا۔ میاں نواز شریف بہت دم بھرتے تھے کہ جی امریکہ ہمارا دوست ہے، ہمارا سٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نے تو ایک ذرا سی مروتاً دعوت پر نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں ایسے تیاری کی تھی جیسے کوئی اپنے سگے بھائی کی شادی پر کرتا ہے۔ جب اوباما پہلی بار صدر بنے تو پاکستانی حکمرانوں نے ایسے خوشی منائی جیسے بارک اوباما ان کا پھوپھی زاد بھائی ہو۔ ہمارے میڈیا نے تو حد ہی گنوا دی۔ بارک اوباما کا نام بارک حسین اوباما لکھا۔ اوباما کو پاکستان میں رہنے اور حیدر آباد میں اوباما کا کوئی جگری دوست بھی دکھا دیا غرضیکہ میڈیا نے ایسے ظاہر کیا کہ باراک اوباما آدھا عیسائی آدھا مسلمان ہے، آدھا امریکی آدھا پاکستانی ہے، آدھا سخت آدھا نرم ہے لیکن باراک اوباما کوئی بادام کی گری نہیں نکلا کہ اوپر سے سخت اور اندر سے نرم۔ پاکستانی میڈیا کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو خبر بنانے پر تُلے رہتے ہیں۔ اکثر ایسی احمقانہ خبریں گھڑی جاتی ہیں جن کو لطائف کے صفحے پر لگنا چاہئے۔ باراک اوباما کے چند روزہ پاکستان میں قیام کو پاکستانی میڈیا نے اس طرح پیش کیا جیسے اوباما کا پاکستان سے جنم جنم کا ناطہ ہو۔ اس سے بھی مضحکہ خیز وہ تجزیے تھے جس میں کہا گیا کہ اوباما بُش اور کلنٹن سے زیادہ پاکستان کے قریب ہے اور اوباما کے دل میں پاکستان کی ممتا پھڑک رہی ہے مگر اوباما نے آتے ہی ڈرون حملوں کی سلامی دے کر تجزیہ نگاروں اور نام نہاد دانشوروں کے طوطے، مینا، کوّے سب اُڑا دئیے۔ بعد ازاں سب سے زیادہ احکامات اوباما نے جاری کئے اور پاکستان ہمیشہ کورنش بجا لایا۔ بھارت جا کر اور پاکستان نہ آ کر باراک اوباما نے بتایا کہ منافقت، تعصب اور کینہ بالآخر سامنے آ جاتا ہے۔ پاکستان جس قدر امریکہ اور باراک اوباما کا دم بھرتا رہا اسی قدر انہوں نے پاکستان کا بھرکس نکال دیا۔ جب نواز شریف نے مبارکبادی خط لکھا، نریندر مودی کی ماں کو ساڑھیاں بھجوائیں، سالگرہ پر تحفے تحائف بھجوائے، گرمیوں میں آموں کی پیٹیاں بھجوائیں اور جواب میں نریندر مودی نے کیا بھیجا --- صلوٰاتیں، طعنے، الزامات، گولیاں اور لاشیں لیکن اوباما کے آنے پر نریندر مودی کی ہنسی ایسے اُبلی پڑ رہی ہے جیسے اوباما نے نریندر مودی سے رشتہ مانگا ہو۔ بات بات پر قہقہے اور آگے پیچھے پھر کر اپنی خوشی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ باراک اوباما کی بیوی مشعل اوباما کو سو ساڑھیوں کا تحفہ جس میں بنارسی ساڑھی سونے اور چاندی کی تاروں سے تیار کی گئی ہے۔ بہرحال نریندر مودی نے باراک اوباما کیلئے دل اور دماغ کے دروازے ہی نہیں کھولے قومی خزانے کے دروازے بھی کھول دیے لیکن ماننا پڑیگا کہ یہ سب نریندر مودی نے بھارت کے فوائد اور عزت کیلئے کیا ہے۔ ان تمام مراعات و عنایات یا نوازشات اور تعلقات کا مقصد ذاتی مفادات نہیں بلکہ بھارت کیلئے اچھے اور دیرپا تعلقات قائم کرنا ہے۔ دوسری طرف باراک اوباما کی خوشی، جوش اور محبت بھی دیدنی تھا۔ باراک اوباما نے نریندر مودی کی تمام شرائط اور فرمائشیں قبول کیں۔ بے شمار تجارتی، دفاعی، معاشی اور سیاسی معاہدے عمل میں آئے۔ خاص طور پر سلامتی کونسل کی مستقل نشست جوہری توانائی کے حوالے سے ٹریکنگ ڈیوائس کا معاملہ۔ نریندر مودی نے ہندی زبان میں بات کی اور اوباما نے خوشدلی، فخر اور مزے سے ہندی الفاظ بولے۔ نریندر مودی کی شخصیات معمولی اور واجبی ہے۔ گہرا پکا سانولا رنگ، چھوٹا قد اور بھدے نقوش، معمولی لباس مگر اعتماد اور حب الوطنی سے سرشار نریندر مودی نے اوباما کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ یہاں تک کہ اوباما نے کہا کہ ’’میرا بھی دل چاہ رہا ہے نریندر مودی کی طرح آج کُرتا پہنوں۔‘‘ یہ ہوتا ہے شخصیات کا تاثر اور اعتماد کا جادو۔ باراک اوباما نے یہ کہہ کر ہمارے منہ پر زور کا طمانچہ دے مارا کہ امریکہ اور بھارت افغانستان کے بااعتماد دوست رہیں گے۔ گویا پاکستان جو افغانستان کا حقیقی برادر اسلامی ملک ہے سب سے قریبی پڑوسی ہے اور گزشتہ تیس پنتیس سال سے افغانستان کی جنگ لڑ رہا ہے اور اب تک اپنا بے پناہ جانی و مالی نقصان کر چکا ہے بلکہ آج پاکستان محض افغانستان کی وجہ سے جنگ کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے بلکہ ہیروئن، چرس کے نشہ کیساتھ کلاشنکوف کلچر اور اسلحہ کی بھرمار افغانستان کی وجہ سے ہے۔ آج بم دھماکے اور دہشتگردی بھی اسی وجہ سے ہو رہی ہے اور امریکہ کا عمل دخل بھی افغانستان کی وجہ سے ہے۔ صرف افغانستان کا کیا رونا --- ایران، عراق، لیبیا، شام، لبنان، متحدہ عرب امارت، سعودی عرب تک ہمارے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ تو پاکستانی حکمرانوں کی کرپشن، عیاشیاں، نااہلیاں، نالائقیاں ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی حکمرانوں کو پاکستان سے نہیں، اپنے اقتدار اور مفاد سے دلچسپی ہے۔ پاکستان کی سفارت کاری نہایت کمزور اور ناقص ہے۔ ہر جگہ ہر سطح پر عہدے پر سفارشی اور اقربا پروری کی بنیاد پر نااہل اور نالائق لوگ تعینات ہیں لہٰذا پاکستان آج سفارتی لحاظ سے ایک کمزور ترین ملک ہے۔ ہمارے ہاں تو حکمران، اپوزیشن اور دیگر جماعتوں کا کام ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، منفی پروپیگنڈہ کرنا، الزام تراشیاں اور رکاوٹیں ڈالنا ہی سیاست یا عبادت ہے۔ اپنے اثاثے بڑھانے اور بچوں کو اپنا جانشین بنانے کے علاوہ ہمارے حکمرانوں کا ایک یہی کام رہ جاتا ہے کہ وہ ہر ہفتے زبردستی کسی نہ کسی ملک کے دورے پر چل پڑتے ہیں۔ پورا ملک تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، ہر طرف دہشتگردی منہ پھاڑے کھڑی ہے، مہنگائی کے جِن نے بچے دے دئیے ہیں۔
بس یہی ہماری اوقات ہے۔ ہم ایزی ٹارگٹ ہیں کیونکہ ہم ہر چیز کو ایزی لیتے ہیں ، ایزی چیئر پر بیٹھتے ہیں اور ایزی کم ایزی گو ہمارا موٹو ہے کیونکہ ہمیں ایزی پیسہ چاہئے عزت نہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38