موجودہ جمہوریت اور دھرنے
احتجاج کرنا عوام کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ جمہوریت کی خوبصورتی ہے کہ وہ عوام کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی آواز حکمران بالا تک پہنچا سکیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ زندہ قومیں ہی ایسا طرز عمل اپنا کر اپنے سیاسی شعور کی بیداری کا ثبوت دیتی ہیں۔ آئین کسی بھی ملک و قوم کے حقوق کا محافظ و ضامن ہوتا ہے۔ پاکستان کا آئین بھی پاکستانی قوم کو آرٹیکل 39 کے تحت یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی آواز کو حکمران بالا تک پرامن احتجاج کے ذریعے پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے جو ان کے مذہبی‘ معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی مفادات کا ضامن ہوتا ہے۔ ۱۹۷۳ءکے آئین کے پارٹ ٹو جس کا عنوان بنیادی حقوق اور پرنسپلز آف پالیسی ہے کے آرٹیکل ۱۶ اور آرٹیکل ۱۷ کے تحت فریڈم آف اسمبلی اور فریڈم آف ایسوسی ایشن کے بنیادی حقوق سے ہر شہری کو سرفراز کیا گیا ہے۔ آرٹیکل ۱۶ فریڈم آف اسمبلی کا بنیادی متن کچھ اس طرح سے ہے۔ ”ہر شہری کو پرامن طریقہ سے اور غیر مسلح انداز سے اکٹھا ہونے کا حق حاصل ہو گا تاہم اس حق کے تحت پبلک آرڈر کو قائم رکھنے کے لئے معقول بندشوں کی پابندی لازمی ہے“ اسی طرح آئین کے آرٹیکل ۱۷ کے تحت فریڈم آف ایسوسی ایشن کا بنیادی حق ادا کیا گیا ہے تاہم اس بنیادی حق کی بہتر تقسیم کے لئے اس کے بنیادی متن پر ایک گہری نگاہ ڈالنا از حد ضروری ہے۔ترجمہ”ہر شہری کو ماسوائے سرکاری ملازم کے سیاسی جماعت تشکیل دینے یا اس کا ممبر ہونے کا حق حاصل ہے تاہم یہ حق ان پابندیوں کے تحت ہی استعمال کیا جا سکتا ہے جن کا تعلق پاکستان کے اقتدار اعلیٰ اور سا لمیت سے ہو اور یہ بھی کہ اگر کوئی پولیٹیکل پارٹی پاکستان کی سا لمیت کے منافی یا امن عامہ کے خلاف اقدامات کی مرتکب ہو تو فیڈرل گورنمنٹ ایسی سیاسی جماعت کے بارے میں یہ اعلان جاری کر سکتی ہے کہ یہ جماعت ریاست کے اقتدار اعلیٰ اور سا لمیت کے مخالف ہے اور ڈیکلریشن کو ۱۵ یوم کے اندر سپریم کورٹ میں پیش کیا جانا ضروری ہے“
قارئین کرام یہ دونوں آرٹیکلز انتہائی وضاحت اور سراحت سے کسی بھی پاکستانی شہری یا سیاسی پارٹی کے فریڈم آف اسمبلی اور فریڈم آف ایسوسی ایشن کے بنیادی انسانی حقوق کو ریاست کے اقتدار اعلیٰ کے احترام اور پاکستان کی سا لمیت کے تحفظ سے مشروط کرتے ہیں۔ گویا یہ دونوں بنیادی حقوق مادر پدر آزادی اور ریاست کے ساتھ کھلواڑ کی ہرگز اجازت نہیں دیتے۔ احتجاجی دھرنے عوام اپنے معاشی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور مذہبی مفادات کو فروغ دینے کے لئے دیتی ہے مگر ایسے دھرنے جو سیاسی خلفشار سے لاقانونیت کو جنم دیں ایسی سرگرمیوں سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ سیاسی کشیدگی ہمیشہ ملکی ترقی و سلامتی کے لئے خطرہ ہوتی ہے۔ سیاسی تعصبات کی بنیاد پر دئے گئے دھرنے ہمیشہ ملکی سا لمیت کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں اور سیاسی ڈھانچے کی کمزوری کا سبب بنتے ہیں جو ملکی سلامتی پر کاری ضرب ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی ڈھانچے کی صورتحال ترقی یافتہ ممالک کی سی نہیں ہے اور اس کی گود میں پروان چڑھنے والی نوزائیدہ ڈیمو کریسی کو ابھی ترقی کی بہت سی منازل طے کرنی ہیں۔ پاکستان کے تقریباً ہر صوبے میں صوبہ پنجاب میں ‘ سندھ میں‘ بلوچستان میں اور خیبر پی کے میں احتجاجی مہم اور دھرنوں کی فضا پھیلی ہوئی ہے۔ کوئی صوبہ معاشی استحکام کے لئے سرگرم ہے تو کوئی سیاسی مفادات کے فروغ کے لئے سربستہ ہے۔ اس طرح کی فضا میں ہم عمران خان کے اسلام آباد دھرنے کے دعویٰ کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں؟ عمران خان ایک ایسی قیادت ہیں جنہوں نے دھرنے دینا اپنا معمول بنا لیا ہے اور اب ان کی احتجاجی مہم اور اسلام آباد کا دھرنا حکومت کے لئے ایک چیلنج کی صورت اختیار کرتاجا رہا ہے کیونکہ اب اسلام آباد کی طرف رخ کا مطلب جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے کیونکہ بنیادی جمہوری مراکز اسلام آباد میں ہیں جو کہ ریاست کے آپریشنل میکنزم کا بنیادی مرکز ہیں۔ عمران خان کی احتجاجی مہم و دھرنے کی بنیادی وجہ پاناما لیکس کا ایشو ہے اور کرپشن کا خاتمہ بھی ہے جو عوام کے معاشی استحصال کا موجب بنا ہے اور عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ سڑکوں پر براجمان ہو کر انصاف حاصل کریں گے جو کہ موجودہ حکومت کے ڈی ریل ہونے کی صورت میں ممکن ہے۔ اگرچہ عمران خان سیاسی میدان میں نیشنل کریکٹر کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی سیاسی سرگرمیوں سے نمبر ون سیاسی جماعت کے لیڈر کی حیثیت سے نمودار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں مگر انہیں بطور سیاسی لیڈر یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ہر نئے دن دھرنے کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کوئی تھیٹر ہے جس میں تین یا دو گھنٹہ کے ڈرامہ سے مختلف انواع کے ناظرین لطیف احساس سے اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔ ان کو یہ بات باور کروانی چاہئے کہ حکومتی معاملات چلانا اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ وہ سمجھ رہے ہیں کیونکہ حکومتی معاملات کا تعلق براہ راست انسانی زندگیوں سے ہے اور انسانی زندگیوں کے مسائل بہت پیچیدہ ہوتے ہیں جن کے حل کیلئے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے سڑکوں کا سہارا لے کر محاذ آرائی سے کام مت لیں بلکہ انصاف کے لئے آئینی‘ جمہوری اور عدالتی راہ اختیار کریں۔
( جاری ہے)
جس طرح سے گزشتہ حکومت میں پرائم منسٹر یوسف رضا گیلانی کو عدالتی فیصلے کے تحت نااہل قرار دیا گیا اسی طرح سے اب بھی عدالت کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانا ضروری ہے اور عمران خان کو عدالت کے فیصلے پر اعتماد ہونا چاہئے۔ اسی میں ہی ملک و قوم کی بھلائی ہے ورنہ ذاتیات پر لڑی جانے والی جنگ دوسرا رخ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ کیا ہم نے ۱۹۷۹ئ‘ ۱۹۵۴ اور ۱۹۹۸ءکا دورانیہ بھلا دیا ہے جب مارشل لاءنےعوامی احتجاج کا گلا گھونٹ دیا اور حکمرانوں نے مخصوص طرز عمل سے نظام حکومت کو چلایا اور انسان قاتل پالیسیاں متعارف کروائیں اور اس طرز عمل سے مختلف انواع کے مسائل نے جنم لیا اور عوامی مفادات ان کے تنگ نظر نظریات کی بھینٹ چڑھ گئے اور آج ہم ان کے سرجیکل ٹریٹمنٹ میں محو عمل ہیں اور آج دہشت گردی کے اژدھے کو مارنے کے لئے ملک و قوم حالت جنگ میں ہیں جس نے ملکی وسائل پر کاری ضرب لگائی ہے جو ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری قوم و ملک اور حکومت اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ سیاسی کشیدگی سے پیدا ہونے والی لاقانونیت کو برداشت کر سکیں؟ کیا سیاسی نقصانات سے ملکی سلامتی کو خطرہ میں ڈالنا خوش آئند ثابت ہو گا؟ یقینا نہیں۔ ا س وقت ہمارے وسائل کا میگا بجٹ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ پر خرچ ہو رہا ہے اور ملک و قوم حالت جنگ میں ہیں اور اس سے بڑھ کر ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے کشیدگی کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے جو کہ کسی بھی وقت سنجیدہ صورتحال اختیار کر سکتا ہے اور ملک میں اندرونی مسائل کی ریل پیل ہے۔ لہٰذا اب ہماری قوم کو اپنے اندر سیاسی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز کریں اور اپنے رویوں میں مثبت سیاسی تبدیلی لا کر اپنے لئے صحیح سمت متعین کریں۔ کب تک وہ شخصی جنگ کا حصہ بنتے رہیں گے اور سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہیں گے۔ اس لئے وہ اپنا مخصوص مائنڈ سیٹ تشکیل دے کر اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں اور سیاسی رویوں کو تنگ نظر نظریات سے آزاد کر کے آزادانہ مثبت سوچ پیدا کر سکتے ہیں اور یہی مثبت سوچ ہی صحیح سیاسی فیصلے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور سیاسی لیڈروں کو سیاسی رویے اختیار کرنے چاہئیں جو جمہوریت کے تسلسل کے لئے سودمند ہوں۔ عوام کو سیاسی بے راہ روی کا شکار مت کریں جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اگر عمران خان نے انصاف لینا ہے تو جمہوری طرز عمل اپنائیں کیونکہ جمہوریت میں ڈائیلاگ سے ہی تمام مسائل کا حل ممکن ہے اور تاریخ بھی از خود گواہ ہے کہ سیاسی مسائل کا حل صرف اور صرف ڈائیلاگ سے ہی ممکن ہے۔ اگر انہوں نے آئینی ‘ قانونی اور جمہوری رویہ اختیار نہ کیا تو ایک مرتبہ پھر ماضی کی کوتاہیوں کے مرتکب ہو کر جمہوریت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یاد رکھیں اگر جمہوریت ہے تو جمہور کی آواز ہے۔