۔۔۔۔۔۔ اور اب پولیس نشانے پر
ہماری اپنی نا اہلیوں اور بیرونی سازشوں کے نتیجے میں چند ہفتے قبل سول ہسپتال کوئٹہ میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی سے پیدا ہونے والے زخم نا صرف ابھی تک ہرے ہیں بلکہ آج بھی ان سے خون بہہ رہا ہے جن پرمتعلقہ اداروں کی طرف سے مر ہم رکھنے کی بجائے‘ الٹا ریاست کے باغیوں نے ایک بار پھر کوئٹہ میں موت کا کھیل رچایا ہے جہاں زیر تربیت پولیس اہلکاروں کو نشانے پر لیکر ریاست کو کمزور اور ریاستی اداروں کو خوفزدہ کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔
انسان جبلی طور پر حریص پیدا ہوا ہے اور جب یہ مرض اپنی اجتماعی شکل میں پورے معاشرے اور ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو دنیا امن کی بجائے فساد کی ایسی آماجگا ہ بن جاتی ہے جہاں اشرف المخلوق کا خطاب پانے والے انسان کے لیے سانس لینا بھی دشوار ہوجاتا ہے کم و بیش اسی صورتحال کا آج کی دنیا کو سامنا ہے جہاں اپنے اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے طاقتور قوموں نے ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کو اپنی سازشوں کی لپیٹ میں لے رکھا ہے پاکستان میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ ہو یا ہماری قومی بقاءکے ضامن ایٹمی و میزائل پروگرام ،پاکستان نے عالمی سازشوں کے نتیجے میں اپنے ان قومی منصوبوں کے لیے ایک بڑی قیمت چکائی ہے اور آج بھی پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر و تکمیل میں رخنہ ڈالنے کے لیے امریکی چھتری تلے بھارت ،افغانستان اور بعض دیگر ممالک نے بلوچستان کو اپنا نشانہ ستم بنایا ہوا ہے وقفے وقفے سے بیش بہا وسائل سے مالا مال اس صوبے میں ظہور پذیر ہونے و۱لے دہشت گردی کے واقعات کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
سر د جنگ کے نام سے موسوم دو قطبی دنیا میں پاکستان کی بھارت کے برعکس امریکہ کی حاشیہ برداری ،افغانستان میں روسی مداخلت کے رد عمل میں امریکہ اور بعض اسلامی ممالک کے عملی تعاون سے افغانستان میں عالمی سطح پر جہاد کی ترتیب و تشکیل ،افغانیوں کی خانہ جنگی کے نتیجے میں پاکستان میں عدم استحکام ،لاکھوں کی تعداد میں افغانیوں کی پاکستان میں منتقلی اور ہمارے معاشی وسائل پر دباﺅ ،9/11کے بعد امریکہ کی افغانستان میں مداخلت اور آج تک کا قیام ،افغانستان میں مقیم ہزاروں لاکھوں جہادیوں کی پاکستان میں منتقلی ،پاکستان بھر میں خود کش حملوں کا آغاذ ۔۔۔۔۔۔۔آگے کی تاریخ ہم سب کے سامنے ہے ۔
پاکستان گزشتہ ایک عشرے سے خوف اور عد م استحکام کا شکار رہا ہے جہاں دہشت گردوں نے پوری قوم کو یر غمال بنا رکھا تھا تا ہم آرمی پبلک سکول پشاور میں قوم کے نو نہالوں نے اپنے خون تازہ سے پوری قوم کو بیداری کی کروٹ لینے پر مجبور کر دیا وہ دن اور آج کا دن ۔۔۔۔ہمارے سکیورٹی ادارے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نا صرف قوم کو احساس تحفظ سے آشنا کر رہے ہیں بلکہ عرض پاک کو اپنی بے پناہ قربانیوں کی بدولت دہشت گردی اور فساد کی لعنت سے کافی حد تک پاک کردیا ہے جس کا بیشتر سے زیادہ کریڈٹ جنرل راحیل شریف اور ان کے رفقاءکار کو جاتا ہے عالمی طاقتوں کے مہرے بنے ہمارے بعض ننگ وطن لوگوں نے کراچی اور بلوچستان میں نفرتوں کی جو آندھی چلائی ہوئی تھی پوری قوم کی اخلاقی حمایت سے افواج پاکستان نے آج اسے قصہ ماضی بنا دیا ہے جس پر سٹپٹانا علاقائی اور عالمی طاقتوں کا ایک فطری رد عمل ہے ۔ کوئٹہ میں رونما ہو نے والے کل کے انسانی سانحہ کو معمول کے مطابق لینے کی بجائے بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کے اعترافی بیانات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول پاکستان میں رو بہ عمل اپنی جارحانہ دفاعی پالیسی کا خود اپنی زبان سے اظہار اور فخریہ اعلان کرتے رہے ہیں جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی سے دوچار کر نے ،داخلی طور پر ہمیں عدم استحکام کی راہ پر ڈالنے ،پاک چین اقتصادی راہداری کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے ،افغانستان میں پاکستان کی پالیسیوں کو ناکامی سے دوچار کر نے اور ضرورت پڑنے پر بلوچستان کو علیحدہ کر نا بتایا گیا ہے کراچی کو عضو معطل بنانے والے الطاف حسین کے بھارتی ایجنسی را کے ساتھ قریبی تعلقات ،رابطے اور اس سے مالی وسائل حاصل کر نے جیسے حقائق آج بھی ثبوتوں سمیت بر طانوی پولیس کے پاس محفوظ ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ برطانیہ اپنے قومی مفادات کے تحفظ میں ان ثبوتوں کی تحقیقات یا انہیں دنیا سے شیئر کر نے پر تذبذب کا شکار ہے تا ہم پاکستان سمیت سارا عالم ان حقائق سے بخوبی آگاہ ہے ۔ بلوچستان جیسے حساس صوبے خصوصاً سی پیک اور گوادر کے تناظر میں صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داریاں دو چند ہو گئی ہیں غم کی اس گھڑی میں ہمہ وقت متحرک رہنے والے جنرل راحیل شریف تو شہیدوں کے جنازے میں شریک اور کندھا دینے والوں میں شامل تھے تا ہم ضرورت اس امر کی ہے کہ افواج پاکستان ،انٹیلی جنس ایجنسیوں ،سکیورٹی اداروں اور پولیس کی طرف سے دفاع وطن کے لیے بیش بہا قربانیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کو بھی مزید آگے آنے اورقومی تحفظ کے لیے نا گزیر وسائل فراہم کر نے کی ضرورت ہے صرف اسی صورت میں ہی سانحہ کوئٹہ جیسے شر کے بطن سے مواقع اور امکانات کی صورت میں خیر برآمد کی جاسکتی ہے ۔