آج کل وزیراعظم پاکستان کے خلاف محاذ آرائی اپنے عروج پر ہے ماسوائے چند غیر اہم سیاسی پارٹیوں کے تمام سیاست دان یک زبان ہو کر اُن کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اپنے تیسرے دورحکومت میں وہ متعدد مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے خود ساختہ مسائل کا ذمہ دار سابقہ بدد یانت اور خود غرض سیاست دانوں ، حریص، جنرنیلوں اور میڈیا کو ٹھہراتے ہیں جو پیسے کمانے کی غرض سے اُن کے خلاف بقول اُن کے بے بنیاد پراپیگنڈہ کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
دراصل اُن کی تمام مشکلات کی وجہ اُن کے حکومت کرنے کا STYLE یعنی طریقہ کا رہے ۔ وہ اپنے تمام حکومتی معاملات اپنے کنبے کے افراد تک سختی سے محدود رکھتے ہیں اور دوسرے کسی شخص کو اُس کی قابلیت اور اہلیت کے باوجود اپنی ٹیم میں شامل نہیں کرتے ۔ نتیجتاً اُن کی سیاسی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام ہے اور حکومتی اموربذاتِ خود اُن اور اُن کے برادرخورد خادم اعلیٰ کے WHIMS یعنی من کی موج پر قائم ہےں۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اس حد تک ہے کہ پنجاب میں حمزہ شریف اپنے والد کے ساتھ شریک اقتدار ہیں اور وفاقی سطح پر اُن کی بیٹی مریم اپنے والد صاحب کے ساتھ مل کر حکومتی کاروبار چلا رہی ہیں اور یوں پارٹی تک حکومتی امور پہنچ نہیں پاتے یا زیادہ سے زیادہ چند چیدہ چیدہ ”قریبی“ لوگوں کو یہ موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ وہ صرف YES MAN کا کردار ادا کرتے ہیں۔ پارٹی کا مکمل اختیار صرف شریف برادران کے گرد گھومتا ہے۔ اختلافِ رائے رکھنے والے کو مکمل طور پر دُور رکھا جاتا ہے اس کے نتیجے میں پارٹی میں جمود طاری ہے۔ اس بناءپر وزیر اعظم اصل حائق اور بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات سے مکمل طور پر بے خبر ہیں اور اُن کے ہاتھ وقت کی نبض پر نہیں ہےں اور ابن الوقت افراد ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں۔ پانامہ لیکس کے بعد وزیر اعظم نے ملک میں نئے منصوبوں کی تعمیر کا سلسلہ بہت تیز کر دیا ہے جس کا اصل مقصد لوگوں کو خوش کرنا ہے اوراس سلسلہ میں” کچھ لو اور کچھ دو“ کے اصول پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک شریف خاندان کے مالی معاملات کا تعلق ہے تو اس بارے میں عوامی سطح پر ہمیشہ شک و شبہات موجود تھے جو کہ پانامہ لیکس کے بعد زبان زدعام ہیں اور وہ نیا رُخ اختیار کر گئے ہیں جس سے شریف خاندان کے لےے سخت مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
اس امر میں کوئی ابہام نہیں کہ جناب نواز شریف کی سیاست اور اُن کے ذاتی کاروباری معاملات میں ایک گہرا تعلق ہمیشہ سے تھا اور اب بھی موجود ہے۔ اس سلسلے میں پچھلے 30سالوں میں متعدد سوالات پوچھے جاتے رہے ہیں مگر انہوں نے کبھی اُن کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی اپنی سیاست کو کاروبار سے علیحدہ کیا۔ اُن کی سیاست اور ذاتی کاروباری معاملات صرف اُن کے خاندان تک محدود ہیں انھوں نے ملکی او رقومی ترقی کی بجائے ہمیشہ اپنے کاروبار کو ترقی دی ہے اور یہ ہر لحاظ سے جمہوری روایات کی سراسر نفی کے مترادف ہے۔ 2013ءمیں اقتداد سنبھالنے کے بعد اُن کے پاس یہ موقع موجود تھا کہ وہ اپنے کاروباری معاملات میں شفاعیت پیدا کریں مگر انہوں نے اس موقع کو نہ صرف ضائع کر دیا بلکہ اس حوالے سے مزید رازداری سے کام لینا شروع کر دیا اور انہوں نے سیاست پر اپنی گرفت کو مضبوط کر کے اپنے کاروباری معاملات سمیت اپنے آپ کو مقفل کر لیا اور تمام سیاسی اور نجی معاملات اپنی اور اپنے چند بہت قریبی عزیز واقارب تک محدود کر دئےے اور نجی کاروبار کے فروغ سے بین الاقوامی تعلقات، ملکی سلامتی کے معاملات اور دوسرے ممالک مثلاً خلیجی کے ممالک، ترکی، چین اور بھارت سے روابط اور معاملات بُری طرح سے متاثر ہونے لگے۔ بین الاقوامی سطح پر بہت تیزی سے تبدیل ہونے والے حالات کے دوران میں کسی بھی حکومت کی یہ غفلت خود کشی کے مترادف ہے ۔ ملک میں حکومت کے خلاف محاذ آرائی کی اصل وجہ یہ ہے کہ جناب وزیراعظم نے تمام ملکی معاملات کو اپنی اور اپنے کنبے کے افراد تک محدود کر دیا ہے۔ قارئےن! اس وقت ملک میں سخت بے چینی اور افراتفری کا عالم ہے۔ خارجہ تعلقات کے پیش نظروزیراعظم کا زیادہ وقت بیرونی ممالک کے دوروں کی نذد ہو جاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ بین الاقومی سطح پر اپنے ملک کی مثبت حکمت عملی کو برقرار نہیں رکھ سکے اور وہ جب چند روز کے لےے ملک میں موجود بھی ہوتے ہیں تو وہ نئے نئے کی منصوبوں کی منصوبہ بندی اور تعمیر میں مصروف رہتے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تیزی سے تورونما ہونے والی تبدیلیاں ملکی سلامتی کے لےے شدید خطرات پیدا کرر ہی ہیں۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت ہماری قیادت کو اس غفلت مجرمانہ کا فائدہ اٹھانے ہوئے ہمارے دیرینہ اتحادی اور دوست ممالک کو ہم سے بدظن کر کے ہمیں مکمل طور پر تنہا کر چکا ہے۔ ہر محب وطن سخت پریشانی کا شکار ہے اور ملک کے مستقبل کے بارے خدشات کا شکار ہے۔ جب کہ ہماری حکومت کو منصوبوں کے افتتاح اورپانامہ لیکس سے فرصت نہیں ہے۔