عید کے رنگ سب کے سنگ
رمضان المبارک کی فیوض و برکات سے مستفید ہو کر قوم آج عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ چھوٹی اور میٹھی عید کا اپنا ایک مزہ ہوتا ہے کہ ایک تو یہ عید رنگوں اور پہنا¶ں کا نام ہے۔ زرق برق لباس مہندی بھرے ہاتھوں میں گجرے اور چوڑیاں پہننے کی خواہش کا نام ہے۔ بچوں کا میٹھی سویوں اور عید کی نماز پر اپنے بڑوں کے ساتھ جانے اور رنگ برنگ غباروں سے کھیلنے کا موسم ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عید پر چاند کو دیکھنے کے خوبصورت احساس کا بھی نام ہے۔ یوں تو چاند روز ہی آسمان پر چمکتا اور دمکتا ہے لیکن عید کے چاند کو دیکھنے کی تمنا ہر دل میں ہی مچلتی رہتی ہے۔ عید کے چاند کو دیکھنے کے لئے یار لوگ پورے سال کا انتظار کرتے ہیں اسی لئے تو بہت دیر سے ملنے والوں کو عید کا چاند بھی کہا جاتا ہے۔ جب سے رویت ہلال کمیٹی کے چاند دیکھنے کے فیصلے متنازعہ اور مشکوک ہونے لگے ہیں لوگوں نے چاند دیکھنے کا معاملہ بھی اپنے ہاتھ لے لیا ہے اور اب ہر شخص اپنا اپنا چاند دیکھتا ہی نظر آتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ کھلی جگہوں اور گھر کی چھتوں پر چاند دیکھنے کا اہتمام کرتے تھے مگر اب جب سے یار لوگوں نے آسمان کے چاند کی بجائے دوسروں کی چھتوں کے چاند دیکھنے شروع کئے ہیں نقص امن کے خطرے کے پیش نظر یہ صورت بھی ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ویسے بھی آسمان پر یا کسی اور کی چھت پر چاند دیکھنے کے لئے نظر کا روشن ہونا بلکہ چشم بینا ہونا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا کمزور دل اور کمزور چشم ہر توقسم کے چاند دیکھنے سے پرہیز کرتے ہیں اور چاند دیکھنے کے حکومتی اعلان کے منتظر ہی رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک عرصے سے دو عیدیں کرنے کا رواج بھی چلا آرہا ہے۔ سنا ہے اس مرتبہ مفتی پوپلزئی کو حکومت کے خرچے پر دوبئی بھیجا گیا تھا لیکن شنید ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں بھی پشاور والوں کو شوال کا چاند نظر آگیا ہے اور انہوں نے ایک روز قبل عید منانے کی روایت برقرار رکھی ہے۔ مختلف ممالک میں چاند کے نظر آنے کی بھی خاصی دلچسپ صورتحال ہوتی ہے کہ اس کا تعلق بھی چاند کے گھٹنے اور بڑھنے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں یہ پہلے نظر آجاتا ہے جبکہ امریکہ اور یورپ میں بسنے والے مسلمان سعودی عرب کے ساتھ عید مناتے ہیں۔
ہمارے ملک میں عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ چاند رات منانے کا بھی پورا اہتمام کیا جاتا ہے اور ان دونوں خوشیوں سے استفادہ کرنے والے زیادہ تر لوگ وہی ہوتے ہیں جو بغیر روزے کے افطار پارٹیوں میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ بہرحال چاند رات منانے اور عید کی خوشیوں سے محظوظ ہونا سبھی کا حق ہے۔ بہرحال روزہ دار کے لئے تو عید ایک انعام اور تحفے کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ باقی رہا چاند رات منانا یا چاند دیکھنا تو یہ بھی ہر کسی کا حق ہے۔ بہرحال چاند دیکھنے کی روایت ضرور برقرار رہنی چاہئے۔ شاعر لوگ تو اپنی شاعری میں چاند چہروں کو چار چاند لگائے رکھتے ہیں اور ان کی چاندی بنی رہتی ہے۔ کچھ لوگ چاند کو دیکھتے ہیں تو کچھ چہروں کو چاند تکتا دکھائی دیتا ہے۔ بقول فراز
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کر دیکھتے ہیں
گویا آسمان چاند سے زمینی چاند بھی کافی کشش رکھتے ہیں لیکن عید بہرحال آسمان کے چاند دکھائی دینے سے ہی بنتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یار لوگ ان زمینی چاندوں کی دید کو ہی عید سمجھتے ہیں ۔ اگرچہ اس وقت دنیا ایک گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے لیکن انسانوں کے رویوں نے انہیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ لوگ پھر سے ایک دوسرے کے قریب آ جائیں۔ عید کی خوشیوں میں ایک دوسرے کو اپنے ساتھ شریک کریں اور شہروں کے میدانوں گھروں کی چھتوں پر اسی طرح چاند کو تکتے نظر آئیں جس طرح کبھی ماضی میں ایسے مناظر دکھائی دیتے تھے۔ بھلے ہر کوئی اپنے چاند کی دید کے بعد ہی عید کرے لیکن اس رسم کو جاری ضرور رہنا چاہئے۔
عید کی خوشیوں کے رنگ اسی وقت دل و نظر کو بھلے لگتے ہیں جب وہ سب کے سنگ ہوں۔ لوگ بھلے چاند اور چاند چہروں کو آنکھ بھر کے دیکھیں اس روز کئی آنکھوں میں چھپی نمی کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ یتیموں‘ مسکینوں‘ بیوا¶ں اور لاوارثوں اور معذوروں کو بھی اس دن کی خوشیوں میں شامل کرنے کا نام عید ہے۔ عید سے قبل بہاولپور‘ پارہ چنار اور کوئٹہ کے دلخراش واقعات پر بھی غمگساروں کو پرسہ دینا ضروری ہے۔ ملک کی سرحدوں پر دفاع کا فریضہ انجام دینے والے محافظوں اور شہروں میں عوام کی جان و مال کے لئے عید کے دن بھی ڈیوٹی سر انجام دینے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی اس دن کی خوشیاں مبارک ہوں۔
چاند دیکھنے کی طرح ایک دوسرے کو اپنے دلی جذبات کے اظہار کے لئے عید کارڈ بھیجنے کی روایت بھی دم توڑ رہی ہے اور بہت سی روایتوں کی طرح اس رسم اور روایت کو بھی جاری رکھنا ضروری ہے۔ اب تو لوگ بس موبائل کے ایک میسج کے ذریعے مشینی انداز میں ایڈوانس عید مبارک دینے لگے ہیں جبکہ اس مبارک دن کا صحیح وقت تو عید کی نماز کی ادائیگی یا پھر چاند رات کا بننا ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے ملک کی عوام ایک دوسرے کی خوشیوں کے سنگ عید کی خوشیوں کو اسی طرح دوبالا کرتے رہیں۔ ملک کو دہشت گردی اور دیگر خرافات سے نجات ملے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی غیر ملکوں میں عید منانے کی بجائے اپنے عوام میں رہ کر ان خوشیوں کا تحفظ بھی کریں اور ان کے لئے عید منانے کا سامان بھی مہیا کریں کہ آج کے دن کوئی بھی مایوس دل گرفتہ ہو کر یہ کہتا دکھائی نہ دے کہ
ہر کوئی اپنے چاند سے تھا محو گفتگو
میں اپنا چاند ڈھونڈتا رہا اور عید گزر گئی