عیدالفطر مسلمانوں کیلئے انعام کا دن
اسلام نے سال بھر میں عید کے صرف دو دن مقرر کئے ہیں ایک عیدالفطر کا دن اور دوسرا عیدالضحیٰ کا اور ان دونوں عیدوں کو ایسی اجتماعی عبادات کا صلہ قرار دیا ہے جو ہر سال انجام پاتی ہیں۔ عیدالفطر رمضان المبارک کی عبادات فاضلہ صوم و صلواة وغیرہ کی انجام دہی کے لئے توفیق الٰہی کے عطا ہونے پر اظہار تشکر و مسرت کے طور پر منائی جاتی ہے۔ یہ ایک دینی خوشی ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ بھی دینی ہی ہونا چاہئے۔ اس لئے اس میں اظہار مسرت اور خوشی منانے کا یہ اسلامی طریقہ قرار پایا کہ اﷲ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجالایا جائے اور بطور شکر کے عیدالفطر کے دن صدقہ فطر ادا کیا جائے۔ عید کے دن تیرہ چیزیں سنت ہیں۔ شرح کے موافق اپنی آرائش کرنا‘ غسل کرنا‘ مسواک کرنا‘ حسب طاقت عمدہ کپڑے پہننا‘ خوشبو لگانا‘ صبح کو بہت جلد اٹھنا‘ عید گاہ میں بہت جلد جانا‘ عیدالفطر میں صبح صادق کے بعد عید گاہ میں جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا مستحب ہے۔ عیدالفطر میں عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا‘ عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا‘ بغیر عذر شہر کی مسجد میں نہ پڑھنا‘ ایک راستہ سے عید گاہ میں جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا‘ عید گاہ جاتے ہوئے راستہ میں اﷲ اکبر‘ اﷲ اکبر‘ لاالہ الا اﷲ واﷲ اکبر‘ اﷲ اکبر و ﷲ الحمد عیدالفطر میں آہستہ آہستہ کہتے ہوئے جانا‘ سواری کے بغیر پیدل عید گاہ میں جانا۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے بندوں کی عبادت پر فخر فرماتے ہیں کہ انہوں نے آدمیوں پر طعن کیا تھا۔ اور ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اے فرشتوں اس مزدور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کردے کیا بدلہ ہے وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری دیدی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے‘ فرشتو! میرے غلاموں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو پورا کر دیا ہے پھر دعا کے ساتھ چلاتے ہوئے عید گاہ کی طرف نکلے ہیں میری عزت کی قسم میرے جلال کی قسم میری بخشش کی قسم‘ میری بلندی مرتبہ کی قسم میں ان لوگوں کی دعا ضرور قبول کروں گا۔ پھر ان لوگوں کو خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جا¶ تمہارے گناہ معاف کر دئے ہیں اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے۔ یہ لوگ عید گاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔ جس روز عید منانے کا حکم حضور اکرم نے دیا ہے اس عید میں کھیل تماشا اور ڈھول تماشہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ فکر سے کام لیا جائے تو عید کے اس اسلامی جشن مسرت میں قدم قدم پر احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ہم عیدالفطر اسلامی طریقہ کے مطابق منائیںتاکہ ثواب آخرت کے مستحق قرار پائیں۔ عیدالفطر کی شب زیادہ عبادت کرنا مستحب ہے اور دن میں روزہ رکھنا حرام ہے۔ عیدالفطر کے دن نماز کی دو رکعتوں کا بطور شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔اگر عید جمعہ کے دن ہو تو جمعہ اور عید دونوں نمازیں پڑھی جائیں گی۔ جمعہ کی نماز کے صحیح اور واجب ہونے کے لئے جو شرطیں فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھی ہیں وہی سب شرطیں عیدالفطر کی نماز کے لئے بھی ضروری ہیں۔ البتہ نماز جمعہ سے پہلے خطبہ کا پڑھنا فرض اور شرط ہے اور عید کی نماز کے بعد خطبہ سنت ہے لیکن سننا اس خطبہ کا بھی جمعہ کے خطبہ کی طرح ہی واجب ہے۔ خطبہ کے وقت کلام وغیرہ سب حرام ہے۔ جمعہ کی نماز کی طرح عید کی نماز کے صحیح ہونے کے لئے بھی شہر و قصبہ یا ایسے بڑے گا¶ں کا ہونا شرط ہے جس میں کثرت سے دکانیں ہوں اور اس کی آبادی قصبہ کے برابر ہو۔
عید کا دن مسلمانوں کی عبادت کا ہے اور اس کو منانے کیلئے خاص شان و صفت کی عبادت نماز کو مقرر کیا گیا۔ یہاں تک کہ جو مسلمان اس دن عمدہ لباس پہنتا اور ظاہری زیبائش و آرائش کرتا ہے اس کا مقصد اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ عید گاہ میں پہنچ کر شکرانہ کے طور پر عبادت کا ادا کرنا ہی ہوتا ہے۔ افسوس ہم دوسری قوموں کی نقالی میں آ کر رفتہ رفتہ عید کے اسلامی تصور اور اس کے حقیقی مقصد کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ ہمیں حضور اکرم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق عید گزارنی چاہئے۔ عیدالفطر کی نماز کا وقت بقدر ایک نیزہ سورج بلند ہونے کے بعد ( جس کا اندازہ پندرہ بیس منٹ ہے) اشراق کی نماز کے وقت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور زوال یعنی سورج کے ڈھلنے تک رہتا ہے۔ نماز عید سے پہلے اس روز کوئی نفلی نماز پڑھنا عید گاہ اور دوسری جگہ پر بھی مکروہ ہے۔
نماز عید کے بعد صرف عید گاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے نماز عید کے بعد دوسری جگہ نفل پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ حکم عورتوں اور ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو کسی وجہ سے نماز عید نہ پڑھ سکیں۔ شہر کی مسجد میں اگر گنجائش ہو تب بھی عید گاہ میں نماز عید ادا کرنا افضل ہے اور ایک شہر کے کئی مقامات پر بھی نماز عید کا پڑھنا جائز ہے۔ نماز عید سے پہلے نہ اذان کہی جاتی ہے اور نہ اقامت۔ صدقہ فطر مقرر کرنے کی وجہ بھی کمی ‘کوتاہی کا ازالہ ہے۔ عیدالفطر میں صدقہ اس واسطے مقرر کیا گیا ہے کہ اول تو اس کے سبب عیدالفطر کے شعار الٰہی میں سے ہونے کی تکمیل ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں روزہ داروں کے لئے گناہوں اور ان کے روزہ کی تکمیل ہے جس طرح کہ نماز میں فرائض کی تکمیل کے لئے سنتیں مقرر کی گئی ہیں۔ ایسا ہی یہ صدقہ مقرر ہوا۔ اغنیا ‘ دولت مندوں اور مالداروں کے گھروں میں تو اس روز عید ہوتی ہے مگر مسکین اور مفلسوں کے گھروں میں بوجہ ناداری اسی طرح سے شکل صوم موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا خدا تعالیٰ نے مالداروں پر بوجہ شفقت علی خلق اﷲ لازم ٹھہرایا کہ مساکین کو عید سے پیشتر صدقہ دے دیں تاکہ وہ بھی عید کریں یہاں تک کہ نماز عید پڑھنے سے پیشتر ہی ان کو صدقہ دینا لازم ٹھہرایا اور اگر مساکین کثرت سے ہوں تو یہ صدقہ خاص جگہ جمع کرنے کا ایما ہوتا کہ مساکین کو یقین ہو جائے کہ ہمارے حقوق کی حفاظت کی جائے گی ۔ جہاں مسلمان اپنے گھر والوں کے لئے قیمتی لباس خریدتے ہیں۔ بچوں کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح غریبوں کا خیال بھی رکھا جائے۔ رمضان المبارک کے اختتام پر جب چاند نظر آتا ہے تو اس رات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ عبادات کا اہتمام کرنا اﷲ تعالیٰ سے استغفار طلب کرنا‘ اپنے لئے والدین کے لئے امت مسلمہ کے لئے دعا رحمت کرنا بخشش طلب کرنا اور اﷲ رب العزت کے سامنے سربسجود ہونا سجدہ شکر بجالانا ضروری ہے لیکن قوم خرافات کے چکر میں ساری رات بازاروں میں گزار دیتی ہے۔ نسل نو کی اسلامی بنیادوں پر تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ دین اسلام سے دوری اور وحدت کا نہ ہونا اس بات کی کھلی دلیل ہے اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ عید کا دن مسلمانوں کیلئے اﷲ کی طرف سے انعام بخشش کا دن ہے اس دن کو اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق گزارنا چاہئے اﷲ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔