کیا کچھ وقت کے لئے گاڑی ڈرائیو کر لوں؟ نہیں۔ ”میاں“ نے کورا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تم چالان کروا دو گی۔ کچھ ہی کلو میٹر آگے بڑھے تھے کہ ”چالان“ ہو گیا۔ نقصان مشترکہ مگر بیوی خوش تھی۔ ایک اور منظرسڑک پر کسی بد احتیاط شخص کی وجہ سے ٹریفک کا نظام اتھل پتھل تھا۔ ڈرائیور کو جلدی تھی مگر آگے والی کار سست رفتاری سے رینگتی دیکھ کر فقرہ کسا کہ لگتا ہے ”کوئی بی بی“ چلا ری ہے۔ اس لمحہ مجھے ایک تعلیم یافتہ شخص اور ان پڑھ ڈرائیور کی سوچ میں مکمل یکسانیت کی جھلک نظر آئی۔ میں نے کہا کہ ٹریفک نظم میں خرابی یا گاڑی کو آہستگی سے چلتے دیکھ کر تم لوگ عورت کو فوراً سے پہلے ”کمزور ڈرائیور“ پکارنا کیوں ضروری سمجھتے ہو۔ دنیا بھر میں جتنے بھی فضائی و زمینی حادثات ہوئے سب ماہر، مشتاق ہوا بازوں اور بہترین ڈرائیورز کے ہاتھوں ہوئے۔ آگے سے بولا کہ درست مگر ہے تو عورت کمزور ہی اور کم عقل بھی تبھی تو مکمل عورت گواہی نصف قرار دی گئی ہے اس کو صرف گھر رہنا چاہئے۔ حقوق نسواں پر ہزاروں کتابیں لکھی گئیں۔ سینکڑوں ڈرامے تخلیق ہوئے مگر اس کے باوجود ”مردانہ سوچ“ میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ قرآن پاک میں کسی بھی جگہ یہ نہیں لکھا ہوا کہ عورت صرف ”گھر داری“ تک محدود رہے۔ اپنی صلاحیتوں کو خاموش زندگی یا غفلت میں پڑ کر ضائع کر دے گھریلو ذمہ داری بھی کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ ”مرد حضرات“ جو جدوجہد کرتے ہیں اس کا تعلق خود کی ذات اور اپنی فیملی کی بقاءتحفظا سے ہے۔ اس لحاظ سے بھی ”خاتون خانہ“ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پورا گھر ایک فرد کے گرد گھومتا ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال ، اخراجات کا حساب کتاب اور مقررہ حد سے تجاوز نہ کرنے پر نظر رکھنا۔ معاشی معاملات سبھی عورت کے خاص دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ عورت کو صرف ایک نظر سے نہ دیکھیں۔ صنفی امتیاز برتنا نہایت غلط فرسودہ سوچ ہے۔ پاکستان کے بڑھتے ہوئے مسائل اور معاشی نا ہمواری سے سب سے زیادہ اثر خواتین کے مزاج پر پڑ رہا ہے کیونکہ ایک عورت کو گھریلو فرائض کی بجا آوری میں بیک وقت کئی محاذ دیکھنا ہوتے ہیں۔ ہماری دیانتدارانہ رائے ہے کہ عورت بہترین ”معاشی مینجر ہے“ قابل سماجی ورکر سے کامیاب سیاستدان تک ذہین عورتوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جو کوئی بھی تاریخ کا تھوڑا بہت شعور رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ عورت کے تعاون کے بغیر کوئی بھی بڑی معاشرتی تبدیلی ممکن نہیں۔ ہماری موجودہ معاشرتی زندگی میں جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے وہ اسی مردانہ سوچ کی بالادست قوت کی پیدا کردہ ہے۔ اخلاقی بے راہ روی سے لیکر کرپشن تک کتنے فیصد واقعات میں کس کا کتنا حصہ ہے۔ کچھ بھی پردہ اخفا میں نہیں۔ عجیب ملک بنا دیا گیا ہے گھر میں ہوں تو بجلی ، گیس ، پانی میسر نہیں اور گھر سے باہر سکیورٹی نہیں۔ اس ملک میں نائب قاصد کی آسامی کے لئے 4500 افراد نے اپلائی کیا۔ یہ 4500 بھی تو کئی ماﺅں کے بیٹے ہیں۔ اس ملک کا طاقتور آل راﺅنڈ وزیر اشیاءپر اضافی ٹیکس واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ٹیکس لگانا حق ہے۔ یہ بھی تو کسی ماں کا ہونہار بیٹا ہے۔ اولاد قابل ہو سکتی ہے تو ماں کیوں نہیں۔ پشاور میں مزید 20 افراد شہید ہو گئے۔ کئی کی حالت نازک ہے۔ دکھ تو زیادہ عورت نے سہا۔ لکھنے کا مقصد صنفی تفریق ہے نہ صنف مخالف کی۔ توہین یا اسلامی احکام کے مطابق متعین کردار ، حیثیت کم کرنا۔ بلکہ امور مملکت کی انجام دہی میں حائل دشواریوں کو دور کرنا اور عام زندگی کو در پیش مسائل کے حل کے لئے مو¿ثر تجاویز پیش کرنا ہے کیونکہ ارشاد نبوی ہے ”عورتیں مردوں ہی کا ایک جزو اور حصہ ہیں“۔ اسی ارشاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے راقم الحروف کی قیادت میں ایک ایسے دانشمند گروہ پر شمتمل اجتماعی سوچ و فکر کا حامل ادارہ کا عمل قیام میں لایا گیا ہے۔ اگرچہ اس وقت ڈھیر ساری خواتین تنظیمیں سرگرم عمل ہیں جو مختلف دائرہ ہائے کار میں کار ہائے نمایاں سر انجام دے رہی ہیں مگر اجتماعی دانش کی کمی ہے۔ عورت بطور شہری زیادہ مصائب جھیل رہی ہے انگنت مسائل، دکھوں کا سامنا کر رہی ہے۔ عورت کی سوچ کا مفید استعمال یقیناً ہمارے بحرانوں کے حل میں کارآمد رہے گا۔ اسی لئے خواتین کا پہلا ”تھنک ٹینک“ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہال میں جوش و خروش دیدنی تھا۔ یہ ”تھنک ٹینک“ سیاسی قیادت، حکومتوں کو روز مرہ مسائل، بحرانوں سے نہ صرف نمٹنے بابت ٹھوس ، باعمل مشورے دے گا بلکہ مسائل کی وجوہات کے خاتمے کے لئے بھی پائیدار حل تجویز کرے گا۔ تقریب میں موجود اکثریت کا خیال تھا بلکہ متفقہ رائے تھی کہ ایک اسلامی ملک میں کوئی بھی ایسا نظام یا نظریہ پنپ نہیں سکتا جو اسلامی احکام کے منافی اور ہماری معاشرتی آداب و اخلاقیات سے متصام ہو۔ روحانیت اور مادیت کے درمیان اعتدال، توازن زیر و زبر ہو چکا ہے۔ اسلام نہ تو زیادتی کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی حد تے بڑھی ہوئی تنگ نظری کو ہم معاشرے میں ایک خوبصورت توازن لانے کے خواہاں ہیں۔ دہشت گردی کے عفریت سے خواتین زیادہ متاثر ہیں۔ عورت فطری طور پر حساس طبیعت کی ہے۔ اس تقریب میں سب سے زیادہ دہشت گردانہ سرگرمیاں موضوع بحث رہیں ۔ اختتام پر شرکائے محفل نے میری تجویز کو کثرت رائے سے منظور کر لیا کہ فی الوقت ہمارے سب مسائل میں سے ”بے روزگاری“ گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے۔ اگرچہ نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ڈھیروں سکیمیں آئیں مگر کوئی بھی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی الٹا قومی خزانے کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان کا موجب بنیں۔ اسی لئے تجویز کیا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ہر نوجوان کو روزگار کے مواقع میسر کیے جائیں۔ عزت کی کمائی کو ممکن بنانے کے لئے زیادہ مفیصد، موزوں رہے گا کہ حکومت فوری طور پر ”یوتھ بینک“ قائم کرے۔ اس بینک کو اعلیٰ تعیلم یافتہ نوجوان قائم کریں اور وہی اس کا انتظام و انصرام سنبھالیں۔ اس بینک کے دو مقاصد طے ہوں اول تعلیم کے فوراً بعد نوکری دوم جو نوکری نہیں کرنا چاہتے ان کو بلا سود قرضہ مگر کسی کاروبار کی شکل میں یعنی مکمل بحالی پروگرام ہو۔ یہ تجویز نہ صرف بے روزگاری کے بڑھتے آتش فشاں کو سرد کرے گی بلکہ جرائمکا بھی بڑھتا ہوا گراف کم کرے گی ضرورت اس امر کی ہے کہ وجوہات کا خاتمہ کیا جائے۔ جرائم ، دہشتگردی کے اسباب مٹائے، کھرچے جائیں۔ غربت ہماری سوسائٹی کو ایک بھیانک، متشدد رویوں کی حامل تصویر بنا رہی ہے۔ اندھیروں کو مٹانا سبھی کا فرض ہے خواہ مرد ہے یا عورت۔ ہمارا تھنک ٹیک ایک معتبر ، موثر فورم کا کردار نبھائے گا۔ تمام ایسی قابل احترام خواتین جو برقیاتی تشہیر سے ہٹ کر خدمت انسانی کا فریضہ نبھا رہی ہیں اور اپنے حصہ کی شمع جلائے ہوئے ہیں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی قابل قدر کاوشوں سے ضرور آگاہ فرمائیں اور معاشرتی اونچ نیچ اور سیاسی و سماجی بدنظمی ، بگاڑ کی اصلاح کے لئے ہمارے ساتھ سفر کا آغاز کریں۔ ہم اپنی تمام تجاویز کو متعلقہ فورم اور حکومت تک براہ راست پہنچانے کا عزم رکھتے ہوئے پر یقین ہیں کہ سیاسی قیادت اس ملک کی 80 فیصدآبادی کی سفارشات کو ضرور عملی جامہ پہنائے گی۔ کسی بھی مسلکی و فکری تنازعہ میں الجھے بغیر ہم مثبت، قابل عمل اصلاحات کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انشاءاللہ و تعالیٰ
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024