عمران خان کی تحریک انصاف 14 اگست کو اسلام آباد میں دس لاکھ لوگوں کا احتجاجی اجتماع منعقد کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے یہ واضح نہیں ہے۔ عمران خان نے خود کہا ہے کہ 14 اگست کے سونامی کے بعد ان کا اگلا قدم کیا ہو گا وہ ابھی نہیں بتا سکتے کیونکہ وہ اپنے سارے پتے نہیں دکھا سکتے۔ ان کے پاس اور کتنے پتے ہیں اور انہیں وہ کب کھیلیں گے یہ دیکھنے میں ابھی کم از کم تین چار ہفتے لگ جائیں گے تاہم عام انتخابات کے نتیجے میں خیبر پی کے کی صوبائی حکومت کے طور پر جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے اس کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان کیسی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوں گے اور اس تبدیلی سے پاکستان کے عوام کو کیا حاصل ہو سکے گا۔ خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کی تشکیل کو ایک سال ہو گیا ہے یہ مدت کافی ہے جس کی کارکردگی کی بنیاد پر باقی عرصہ کی کارکردگی یا پارٹی کے ایجنڈے پر عملدرآمد کے حوالے سے سنجیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو پنجاب میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے میٹرو بس منصوبے کا بڑا چرچا تھا۔ شاید اسی وجہ سے یا تحریک انصاف تاریخی کارنامے سرانجام دینے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اعلان کیا گیا کہ تحریک انصاف کی حکومت خیبر پی کے میں ایک میگا سٹی تعمیر کرے گی۔ اچھی خاصی پیداوار والی زرعی زمینوں کو سرکاری طور پر حاصل کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا، اس میں نہ یہ خیال کیا گیا کہ اس سے صوبے کی زراعت اور ماحولیات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، نہ یہ کہ اس میگا سٹی منصوبے کا صوبے کی معیشت میں کیا کردار ہو گا؟ ایسے بنیادی سوالات کو نظر انداز کر کے ایک بہت بڑے ہائوسنگ پراجیکٹ کے طور پر اس منصوبے کا تصور پیش کر دیا گیا۔
تحریک انصاف نوجوانوں کی حمایت سے صوبہ میں اقتدار میں آئی ہے، انہیں مناسب روزگار فراہم کرنے کی طرف تحریک انصاف کی توجہ ہونی چاہئے۔ تحریک انصاف کے ایجنڈے کی وضاحت کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین نے سب سے زیادہ زور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی پر دیا۔ انہوں نے بار بار یہ کہا کہ وہ دیہات کی سطح تک منتخب جمہوری ادارے قائم کریں گے جو مالی طور پر بااختیار ہوں گے، ارکان اسمبلی کو جو صوابدیدی فنڈز ملتے ہیں وہ ان مقامی حکومتوں کو منتقل کر کے دئیے جائیں گے۔ یہ بات دنیا بھر میںتسلیم کی جاتی ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام لوگوں کے مسائل کے حل کیلئے بہترین نظام ہے۔ جتنے اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوں گے جمہوری ادارے اتنے ہی مضبوط ہوں گے، کرپشن کی حوصلہ شکنی ہو گی، سماجی رویے میں مثبت تبدیلی آئے گی اور جرائم میں کمی ہو گی۔ امید تھی کہ تحریک انصاف کم از کم خیبر پی کے میں مقامی حکومتوں کا ایسا نظام قائم کر دے گی جس سے صوبے میں تبدیلی نظر آئے گی جو دوسرے صوبوں کیلئے قابل تقلید ہو گی لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین کے نزدیک صوبے میں وسیع پیمانے پر تبدیلی کی بجائے انتخابات میں دھاندلی کا موضع شاید زیادہ محبوب تھا۔ صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کی بات چلی تو خیبر پی کے کی حکومت نے اعلان کیا کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات زیادہ سے زیادہ نومبر 2014ء تک ہو جائیں گے۔ اس تاخیر کی وجہ یہ بتائی گی کہ اب خیبر پی کے حکومت عام انتخابات بائیو میٹرک سسٹم پر کرائے گی تاکہ دھاندلی کا کوئی امکان نہ رہے۔اب عمران خان نے 14 اگست کو ملک بھر کے دس لاکھ لوگوں کو اسلام آباد میں آ کر عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے کی کال دی ہے۔ اس سے ظاہر ہے ان کی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے حکمرانوں اور دنیا کے عوام کو بتا دیں کہ ان کے کہنے پر دس لاکھ لوگ اسلام آباد میں جمع ہو سکتے ہی لیکن یہ دس لاکھ لوگ اسلام آباد کے ڈی چوک میں آ کر عمران خان کی تقریر سُننے کے علاوہ کیا کریں گے۔ کیا وہ ڈی چوک کو قاہرہ کا تحریر چوک بنانا چاہتے ہیں؟ (التحریر اسکوائر پر اجتماع کے بعد مصر میں کتنا کشت و خون ہو چکا ہے وہ ایک لگ قصہ ہے) ۔ فرض کیجئے دس لاکھ لوگ اسلام آباد کے ڈی چوک میں پہنچ جاتے ہیں (وزیراعظم میاں نواز شریف کا اندازہ ہے کہ چالیس پچاس ہزار کے لگ بھگ ہوں گے) کیا یہ دس لاکھ لوگ ملک بھر کے عوام کے نمائندہ ہوں گے؟ اگر یہ مجمع حکومت سے استعفیٰ طلب کرتا ہے اور اسلام آباد میں نظام حکومت کو مفلوج کر دیتا ہے تو کب تک یہ کیفیت برقرار رہے گی۔ کشت و خون اگر حکومت کی طرف سے نہیں ہو گا تو مظاہرین کی طرف سے ہو گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اب تک تحریک انصاف کے جتنے احتجاجی جلسے ہوئے ہیں ان کے نتیجے میں تشدد نہیں ہوا لیکن یہ تو فائنل سونامی ہونے والا ہے۔ اس کے بارے میں تحریک انصاف کے چیئرمین نے عوام کو بڑی امیدیں دی ہوئی ہیں۔ کیا یہ دس لاکھ یا پچاس ہزار لوگ کوئی نتیجہ حاصل کئے بغیر واپس چلے جائیں گے جن کے اصلی مسائل، مہنگائی، بیروزگاری، غربت، تعلیم و صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی، ایندھن اور بجلی کی عدم دستیابی ہیں جو عمران خان کے سونامی ایجنڈے میں نظر نہیں آتے بلکہ دھاندلی کے احتجاج کے پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ کیا عمران خان بھی حقیقی ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹا کر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں؟
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024