وہ خود تو اِس قابل نہ تھا لیکن اُس کے پڑ داد ا کا نام سن کر پیرس سے لے کر لندن تک اہلِ مغرب کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور یونان سے لے کر اسپین تک سارا یورپ ضرور کانپ اٹھتا تھا، لیکن خود اُسے عثمانی ترکوں میں نکما ترین سلطان قرار دیا جاتا ہے۔ اُسے حکمرانی کرنے کا گر بھی نہیں آتا تھا، اِسی لیے اُس نے اپنے بیشتر اختیارات اپنی والدہ صفیہ سلطان کو سونپ رکھے تھے، اگرچہ وہ سلطان سلیمان عالیشان کے بعد میدان جنگ میں اترنے والا پہلا عثمانی حکمران تھا، لیکن اُس کی ’’لیاقت‘‘ کا یہ عالم تھا کہ میدان جنگ میں بھی اپنے بڑوں کا نام اس طرح ڈبویا کہ عثمانی فوج کو پہلی مرتبہ 1596ء سے 1605ء تک ہنگری میں آسٹریا کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں شکست کا داغ بھی ماتھے پر لگوانا پڑا۔اکثر مورخین کے نزدیک جنگ میں شکست کی وجہ وہ امراض تھے جو بسیار خوری اور کثرت کے ساتھ بادہ نوشی کی وجہ سے اُسے لاحق ہوچکے تھے، تاریخ بتاتی ہے کہ وہ پیٹ بھرکر نہیں کھاتا تھا بلکہ آنکھیں بھر کر کھاتا تھا، جب تک کھانا اس کی آنکھوں کے سامنے رہتا، وہ کھاتا رہتا اور اُس کے بعد بادہ نوشی کی لمبی محفلیں جماتا، اُس کی اِن عادات کی وجہ سے اُسے ایسے امراض نے جکڑ لیا تھا جن کی وجہ سے وہ تلوار تک نہ اٹھاسکتا تھا، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ تمام بیماریوں کے باوجود اُس نے اگر تلوار اٹھائی بھی تو اپنے بھائیوں کے خلاف اٹھائی۔سلطنت عثمانیہ میں تخت سنبھالنے کے ساتھ ہی ’’برادر کشی‘‘ کی جس قبیح رسم کا آغاز سلطان محمد فاتح کے دور میں ہواتھا آہستہ آہستہ یہ رسم زور پکڑتی چلی گئی اور بعد میں آنے والے عثمانی سلاطین نے اِس رسم پر سنت ِعثمانی سمجھ کر عمل کیا۔ حکمرانوں کی تاریخ میں برادر کشی کے باب میں اِس بسیار خور سلطان کا نام سرفہرست رکھا جاتا ہے۔ ستائیس بھائیوں اور بیس سے زیادہ بہنوں کا قاتل یہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ تیرہواں ترک سلطان اور پانچواں عثمانی خلیفہ سلطان محمد ثالث تھا۔سلطنتوں کے عروج وزوال میں شاہی خاندانوں کے افراد بالخصوص بادشاہوں کے بھائیوں کا بڑا کردار رہا ہے، شاہی سلطنتوں میں جو بھائی آپس میں ایک دوسرے کے دست و بازو بنے، ان کی خاندانی سلطنتیں لمبے عرصہ تک قائم رہیں اور جو شہزادے آپس میں لڑتے جھگڑے رہے، اُن سے ان کی حکمرانیاں اور بادشاہتیں چھن گئیں اور اُن کی جگہ نئے لوگ آگئے۔ سعودی عرب کا حکمران خاندان آل سعود بھی ایک شاہی خاندان ہے۔ جدید مملکت سعودی عرب کی بنیاداگرچہ 1932ء میں پڑی لیکن جزیرہ نما عرب میں آل سعود کا اثر و رسوخ چند صدیاں پہلے اُس وقت شروع ہوا جب سلطان محمد ثالث جیسے ترک سلاطین کی وجہ سے عثمانی زوال کی جانب مائل ہوچکے تھے۔ موجودہ سعودی مملکت کے بانی عبدالعزیز ولد سعود سے قبل یہ خاندان نجد میں حکمران تھا اور اکثر عثمانی سلطنت اور مکہ کے راشدیوں کے ساتھ ان کا ٹکراؤ بھی ہوتا رہتا تھا، عظیم ترک سلطنت کے ساتھ ٹکراؤ کے باوجود آل سعود تین مرتبہ حکومتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جن میں پہلی سعودی ریاست، دوسری سعودی ریاست اور جدید اور موجودہ سعودی عرب شامل ہیں۔ آل سعود نے ترکوں کے زوال اور بالخصوص برادر کشی کی رسم سے بہت کچھ سیکھا، سعودی جانتے تھے کہ شاہی سلطنتوں کے خلاف بغاوتوں کا خدشہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اگلے بادشاہ کے بارے میں ابہام موجود ہو ، لیکن تاج و تخت کے بارے میں صورتحال واضح ہونے پر بادشاہ اور سلطنت کے خلاف بغاوت کے خدشات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کام جو عثمانی اپنے اقتدار کی چار پانچ صدیوں میں نہ کرسکے، وہ آل سعود نے اقتدار کے پہلے چند برسوں میں ہی کرلیا اور وہ کام یہ تھا کہ ایک بادشاہ کے بعد دوسرے بادشاہ کا انتخاب کیسے ہوگا؟ سعودی آئین کے مطابق بانی سلطنت عبدالعزیز ولد سعود کی اولاد ہی سعودی ریاست کی بادشاہ یا ولی عہد قرار دی جا سکتی ہے۔عثمانی ترکوں کے برعکس آل سعود کی خوش قسمتی ہے کہ اُن میں برادر کشی یا پسر کشی کی قبیح روایت نے بھی جنم نہیں لیا، یہی وجہ ہے کہ آل سعود میں عبدالعزیز کے چھ بیٹے کسی قتل و غارت کے بغیر ایک دوسرے کے بعد اقتدار سنبھال چکے ہیں اورابھی تک ایک بادشاہ کی طبی موت کے بعد ہی دوسرا بادشاہ سعودی عرب میں اقتدار میں آیا ہے۔قارئین کرام!!ترک سلطان محمد ثالث بادہ نوشی کے ساتھ کھانے پینے کا بھی بہت شوقین تھا، وہ ہر وقت کھاتا رہتا تھا، وہ جہاں بھی ہوتا، میووں اور کھانوں کی طشتریاں اٹھائے خدام اُس کے ساتھ ساتھ ہوتے، برادر کشی میں ’’بدنامی‘‘کمانے کے سبب کہا جاتا ہے کہ وہ روزانہ ناشتے میں اپنا ایک رشتے دار کھا جاتا تھا۔لیکن بڑی تعداد میں بھائیوں اور تخت کیلئے خطرہ ثابت ہونے والے رشتے داروں کے قتل کا یہ نتیجہ نکلا کہ جب جوانی میں ہی سلطان محمد ثالث کا انتقال ہوگیا تو خاندان میں کوئی لائق فرد تخت سنبھالنے والا ہی نہ بچا تھا، لیکن اس کے برعکس آل سعود اس وقت تقریباً 25 ہزار ارکان پر مشتمل ہے، جن میں شہزادوں کی تعدادسات ہزار ہے جبکہ 200 سے زائد انتہائی قابل ، لائق اور اہل شہزادے موجود ہیں۔ سعودی سلطنت میں بادشاہ کے خلاف بغاوت کاہونا اس لیے بھی مشکل ہے کہ آل سعود نے ’’ددھیالی قرب‘‘یعنی (Agnatic) کی بنیاد پر پہلے سے طے کرلیا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا ہی نہیں بلکہ ایک کے بعد آئندہ دس بادشاہ کیسے بنیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ فہد بن عبدالعزیز نے اپنے سات سگے سدیری بھائیوں کی مخالفت کے باوجود اپنے سوتیلے بھائی عبداللہ بن عبدالعزیز کو ولی عہد برقرار رکھااور شاہ فہد کے انتقال کے بعد عبداللہ بن عبدالعزیز سعودی عرب کے بادشاہ بنے۔ شاہ عبداللہ بھی اپنے سوتیلے سدیری بھائیوں کی مخالفت سے پوری طرح آگاہ تھے،لیکن پہلے سے طے شدہ قانون کی وجہ سے شاہ عبداللہ نے اپنے سوتیلے سدیری اور مخالفت کرنے والے سلمان بن عبدالعزیز کو ولی عہد برقرار رکھا اور اب شاہ فہد کے یہی سدیری بھائی شاہ سلمان سعودی عرب کی فرمانروائی سنبھال چکے ہیں۔سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر اور سعودی بادشاہوں کو اپنا بھائی قرار دینے والے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی طاقت کا بھی یہی راز ہے کہ دونوں بھائی ایک دوسرے کے ساتھ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں اور ایک دوسرے کی عزت و احترام میں کسی صورت کمی نہیں آنے دیتے۔ شہباز شریف نواز شریف کو اپنا بڑا بھائی سمجھنے کے علاوہ اپنا قائد بھی سمجھتے ہیں جبکہ نواز شریف بھی شہباز شریف کو صرف ایک بھائی یا ایک کارکن ہی نہیں سمجھتے بلکہ کسی بھی اچھے برے وقت میں میاں نواز شریف اگر کسی پر اندھا اعتماد کرسکتے ہیں تو وہ صرف ان کا چھوٹا بھائی شہباز شریف ہی ہے، جس دن دونوں کی یہ محبت ختم ہوگئی، اُس دن سلطنت عثمانیہ کی طرح مسلم لیگ ن بھی ختم ہوجائے گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38