ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت کے راگ تو الاپتے ہیں مگر جمہوریت کی روح سے واقف ہیں نہ اس کے معنی سے شناسا ہیں۔ ہم نے اپنی قوم کو ووٹ کی حرمت قوت سے آگاہ کیا ہے نہ اس کی اہمیت واضح کی ہے ۔ انتخابات کسی بھی قوم کی کایا پلٹ دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں کہلاتے تو قومی انتخابات ہیں مگر ان میں حصہ لینے والے علاقائی لسانی قبائلی اور نسلی تنازعات کو اجاگر کر کے اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں۔ ایسے حضرات سے بنی ہوئی مقننہ سے قومی نوعیت کے امور پر سنجیدگی سے ڈٹ جانے کی امید اور امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ دو اڑھائی عشروں سے آنے والی اسمبلیاں وفاق پاکستان کی کمزوری کا باعث ہی نظر آئیں جس سے قومی اتحاد اور ملی وقار زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے۔ آئین 1973ء کے آرٹیکل 251 اردو کو متفقہ طور پر قومی زبان قرار دے کر دفتری، عدالتی اور تعلیمی سطح پر نافذ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے جس میں کمی بیشی دور کرنے کیلئے 1973ء کی حکومت کو پندرہ سال کی رعایت دیتے ہوئے 15 اگست 1988ء سے نافذ العمل سمجھا جانا تھا۔ علاوہ ازیں بانی پاکستان نے 24 مارچ 1948ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کانووکیشن میں اپنا قطعی فیصلہ دیتے ہوئے فرمایا ’’آزادی کے معنی بے راہ روی کے تو نہیں ہیں کہ جو کچھ تمہارا دل چاہیے وہ کرو اور قوم کے مفاد پس پشت پر ڈال دو، مملکت کی سلامتی کو نظر انداز کر دو، ہمیں ایک متحد قوم بن کر کام کرنا ہے ، نظم و نسق کو قائم رکھنا ہے اور تعمیری جذبے کو بروئے کار لانا ہے۔‘‘مجھے افسوس ہے زبان کا جھگڑ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس کے لئے صوبائی عصبیت کا زہر پھیلا یا جا رہا ہے میں دوبارہ اس کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ صوبہ میں سرکاری استعمال کے لئے جو زبان اختیار کر لو جو تمہارے نمائندوں کا کام ہے لیکن مملکت کے باہمی ربط کے لئے صرف ایک ہی زبان ہوگی جو اردو اور صرف اردو ہونی چاہیے۔
ایوانوں میں براجمان حضرات کی آئین سازی میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ مشاہیر پاکستان کے فرمودات و افکار سے آشنا ہیں۔ ان کی ترجیحات ذاتی اور گروہی مفادات ہیں لہٰذا قومی امور ایک ایک کرکے مدہم پڑتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ادیب و صحافی شاعر و قلم کار حضرات کا رُخ بھی اہم ترین قومی امور کی جانب نظر نہیں آتا۔ ایسے گھمبیر حالات میں چند اہل دل اور صاحبِ درد خاک نشینوں نے فرمودات قائد اور آئین کی دفعہ 251 کے مکمل نفاذ کے لئے پاکستان قومی زبان تحریک کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کا آغاز کیا، نہایت ہی قلیل مدت میں محبان وطن اور دردمندانے اردو کا ایک جھرمٹ نظر آنے لگا۔ صرف چھ ماہ میں دو بڑی منظم اور نتیجہ خیز کانفرنس منعقد کیں۔ پہلی کانفرنس یکم جون 2014ء ہمدرد سنٹر لاہور، دوسری 29 دسمبر 2014ء نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ایوان کارکنان تحریک پاکستان کے تعاون سے غلام حیدر وائیں ہال میں انعقاد پذیر ہوئی جس میں ملک کے معروف دانشور، محقق اور اہل درد نے شرکت فرمائی۔ شدید دھند کے باوجود کانفرنس میں جتنے شرکاء موجود تھے اور جس سنجیدگی سے تمام کاروائی میں حصہ لیا، شہر لاہور میں ایسی مجلسیں کم کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ کانفرنس کی صدارت ٹرسٹ کے وائس چیئرمین اور ڈاکٹر رفیق احمد نے فرمائی۔ مہمانوں میں جنرل حمید گل ، اوریا مقبول جان ، جماعت اسلامی کے ڈاکٹر وسیم احمد ، اعجاز چودھری۔ مقررین حضرات میں ابصار عبدالعلی ، حافظ عبدالرحمن مکی، پروفیسر مجاہد منصوری ، ڈاکٹر اجمل نیازی اور جنرل راحت لطیف کے علاوہ دیگرحضرات تھے۔ پوری کانفرنس میں تحریکی جذبہ کارفرما تھا۔ پڑھی گئی قرار دادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ ہر تعلیمی سطح پر یعنی جماعت اول سے مقابلے کے امتحان تک اردو نافذ کی جائے۔ ایوانوں ، عدالتوں اور دفاتر میں اور سفارتخانوں میں فی الفور اردو کا نفاذ کیا جائے۔ اجلاس کی نظامت راقم الحروف اور پروفیسر رضوان الحق نے کی جبکہ انتظامیہ میں پروفیسر سلیم ہاشمی ، پروفیسر زاہد ، محمد نصیر ایڈووکیٹ، فاطمہ قمر اور ثروت روبینہ نمایاں تھیں۔ جناب شاہد رشید سیف اللہ ، چودھری محمد عثمان اور سہیل کی خدمات کے بغیر اتنی بڑی کامیابی ممکن نہ تھی۔
قارئین کرام! جنرل ریٹائرڈحمید گل نے کیا خوب کہا کہ آج انگریزی پر اتنی توجہ دینے کے باوجود ہم کسی ایک شعبے میں انگریزی زبان کا ما ہر پیدا نہیں کر سکے۔ ہمیں اپنی زبان کے لئے تگ و دو کرنا ہوگی۔ اغیار کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے اردو لازمی ہے۔ جناب اوریا مقبول جان نے فرمایا کہ دنیا کی گذشتہ پانچ ہزار سالہ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ اس دوران ایک بھی قوم نے اپنی زبان چھوڑ کر ترقی نہیں کی اور آپ دوسروں کی زبان میں علم تو حاصل کر سکتے ہیں تحقیق نہیں کر سکتے۔ عربوں اور انگریزوں نے اپنی زبان میں ہی علم کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کی۔
اعجاز چوہدری نے کہا کہ اردو کو قائداعظم کے فرمان کے مطابق اس کا جائز حق دیا جائے۔ آج کا پاکستان قائداعظم کا پاکستان نہیں۔ ہمیں مکمل سچ بولنے کی عادت اپنانی چاہئے اور سچ یہ ہے کہ ہم اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ آج انگریزی زبان اشرافیہ کی زبا ن بن چکی ہے ہم تب تک ایک قوم نہیں بن سکتے جب تک اس کا نصاب یکساں نہ ہو۔ آج استعمار اردو کی ترویج کرنے سے روک رہا ہے۔ محترم ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ ملک میں انگریزی کو غیر آئینی مقام دیا گیا اردو کو اس کا جائز مقام دیا جائے۔ انگریزی تعلیم ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچے تعلیم کو خیر آباد کہہ گئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ میں اردو کے اندر کارروائی شروع کروائیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے فرمایا کہ اگر ہمارے ہاں مقابلے کے امتحان اردو میں ہوتے تو آج بہت باصلاحیت افراد مختلف شعبوں میں موجود ہوتے۔ حافظ عبدالرحمن مکی نے کہا کہ اردو کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں یہ زبان صوبائیت و لسانیت کے خاتمے اور وحدت کی علامت۔ مذہب اسلام، دو قومی نظریہ اور اردو زبان ہی اس خطے کے مسلمانوں کو متحد کر سکتی ہے اردو ہی کو ذریعہ تعلیم بنائیں۔ جناب مجاہد منصور نے کہا کہ اردو قومی رابطے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسلام اور نظریہ پاکستان کے بعد اردو ایک ایسی طاقت ہے جس کے باعث پاکستان معرض وجود میں آیا اردو قومی استحکام کا ذریعہ ہے۔ آخر میں قومی زبان تحریک کے صدر ڈاکٹر شریف نظامی نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024