اگرچہ شام کے سائے رات کی سیاہی میں ڈھل چکے تھے مگر موسم میں خنکی قابل برداشت تھی، صدارتی قافلہ کسی بھی لمحہ آیا چاہتا تھا۔ اسلام آباد کی وی وی آئی پی گزر گاہ پر ہماری رہائش تھی، تارکول کی کالی سیاہ چوڑی سڑک پر ہم صرف دو خواتین کھڑی تھیں، نہ بہت سکیورٹی نہ ہٹو، بچو کی کان پھاڑتی آوازیں، تب امن، سکون کا دور تھا، نہ دنیا زیادہ شیطانی دبائو میں آئی تھی اور نہ ہی مسلم اُمہ کے لئے منحوس وقت شروع ہوا تھا۔ آج صبح سے ہی جوش تھا، دینی وابستگی، احترام کا رشتہ ہمیں استقبالی روٹ کی طرف لے گیا۔ چند ثانیوں بعد شاندار گاڑیوں کا قافلہ سامنے سے گززنا شروع ہو گیا۔ ہم شش و پنج میں تھے کہ شاہ عبداللہ کس گاڑی میں ہیں۔ گاڑیوں اور ہمارا فاصلہ صرف چند انچ برابر تھا، اچانک ایک گاڑی کے کالے پردے سے نہایت قیمتی گھڑی پہنے ہوئے خوبصورت ہاتھ باہر نکلا، آج بھی وہ لمحہ یاد ہے ’’صدر مشرف اور شاہ عبداللہ‘‘ نے ہمیں سلام کیا۔
رات کے پونے چار بچے جدہ سے شاہ عبداللہ کے انتقال پُرملال کی خبر ملی۔ خبر کیا تھی یوں محسوس ہوا کہ پاکستان کا ذاتی نقصان ہو گیا۔ دنیا بھر میں شاہ عبداللہ کو سیاسی و سماجی مصلح کے طور پر جانا جاتا ہے۔ دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی اور ڈائیلاگ کا کلچر متعارف کروایا، رواداری، برداشت، عفو و درگزر کا پیغامبر تھے۔ سعودی معاشرہ کو قدامت پسندی سے جدیدیت کی طرف سفر کا آغاز کروایا۔ خواتین کو سوسائٹی میں بلند، باوقار حیثیت دلوانے کے سلسلہ میں پہلے قدم کے طور پر بلدیاتی الیکشن میں ووٹ کا حق دیا۔ اولمپک مقابلوں میں شرکت کی اجازت عنایت فرمائی۔ عام شہریوں کی تعلیم کے لئے جدید ترین تعلیمی ادارے قائم کئے، رعایا کی فلاح و بہبود کے واسطے ان گنت سماجی کارکنوں کے علاوہ بلاسود قرض کی سہولت نعمت سے کم نہیں۔ مسلم اُمہ کے اتحاد اور ترقی کے زبردست داعی تھے۔ یقیناً دنیا ایک معاملہ فہم اور بالغ النظر عالمی مدبر سے محروم ہو گی۔ سعودی شاہی افراد پاکستانی عوام کے دلوں میں مقدس حیثیت رکھتے ہیں، بحیثیت مجموعی مقاماتِ مقدمہ کے علاوہ بھی ہمارا شاہی حکمرانوں سے یک گونہ اُنسیت، ادب، شفقت کا معاملہ ہے۔ زلزلہ ہو یا سیلاب ہمیشہ مروت، محبت، خصوصی لگائو کا معمول، رویہ دیکھا گیا افغان مہاجرین کی خوراک، دوائی، کپڑوں کا خصوصی اہتمام رہا۔ بدترین سیلاب کے دوران شاہ عبداللہ نے کوئی حد مقرر کئے بغیر دل کھول کر پاکستان کی امداد کی۔
پاک سعودی تعلقات کی مضبوطی، بنیاد میں شاہی خاندان کی مخلصانہ امداد، سوچ، گہری اپنائیت کے اجزا شامل ہیں۔ پاکستان کی خیر خواہی ہمیشہ سے مصلحتوں، وقت کی گرد آلود الائشوں سے پاک رہی۔ ابتلا و کرب کے تمام لمحات میں سعودی حکومت، عوام پاکستانی قوم کے شانہ بشانہ رہے۔ پاکستانی مفادات کا دفاع، ترقی، استحکام کے لئے وہ ہمیشہ سرگرم اور کوشاں نظر آتے تھے۔ سیاسی ابتری نے ایک بُرے عہد میں سعودی قیادت کی بحران حل کروانے کے لئے کی گئی کاوشیں کسی بھی لحاظ سے فراموش نہیں کی جا سکیں گی۔ حکومتوں کی سطح سے بھی ہٹ کر دیکھیں تو دونوں ممالک کے عوام کے مابین بھی ایک فخر ہے، بھائی چارہ کی تاریخی تاریخ ہے، تجارتی روابط سے سیاحتی، ثقافتی، تعلیمی پارٹنرشپ کی جڑیں دن بدن ٹھوس شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ شاہ عبداللہ کے اس تاریخ ساز کردار کو کبھی بھی نہیں بھلایا جا سکتا کہ اسلام برداشت، تحمل کا علمبردار ہے۔ تشدد، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بڑھتے رجحان میں مسلمانوں کا کوئی دوش کردار نہیں۔
فروری 2006ء کی وہ شام ہماری زندگی میں ایک تاریخی مقام کی حامل رہے گی کہ عورت ہونے کے باوجود دلی عقیدت، سرزمین حجاز سے گہری محبت کا بے لوث، خوبصورت جذبہ ایک جھلک دیکھنے کی خاطر سکیورٹی کی بھی پروانہ کی۔
2002ء میں فلسطین تنازعہ کی شدت کم کرنے اور پائیدار امن کے قیام کے لئے ’’عبداللہ عرب امن منصوبہ‘‘ ایک شاہکار فارمولا تھا مگر افسوس کہ طاغوتی طاقتوں کو امن کی خواہش نہ تھی۔ اگر وہ تب فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیتے تو آج مسلم اُمہ کی جو انتشاری کیفیت ہے وہ ہرگز بڑھ نہ پاتی کیونکہ یہی تو دشمن قوتیں چاہتی ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ نئے حکمران شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور میں پاک سعودی تعلقات عوامی سطح پر مضبوط ہوں۔ خدا تعالیٰ شاہ عبداللہ مرحوم کو اپنے خاص بندوں کی فہرست میں شامل کر کے رحمتوں کے سائے میں جگہ عطا فرمائے۔
پاکستان سے خصوصی مراسم، محبت کی وجہ سے شاہ عبداللہ کو ’’عبداللہ پاکستانی‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا جاتا تھا۔ ہمیں خوشی ہے کہ نئے فرمانروا بھی پاکستان کے متعلق برادرانہ جذبات رکھتے ہیں اور خوشی ہے کہ وہ دو مرتبہ پاکستان تشریف لا چکے ہیں۔ قومی تاریخ کے ہر کڑے، دشوار مراحل میں سعودی عرب نے ہمیشہ نتائج سے بے پرواہ، بالاتر ہو کر ہماری مدد کی، تائید و حمایت سے نوازا، مسئلہ کشمیر سے ایٹمی دھماکوں تک تمام نازک لمحات میں سعودی تعاون، اعانت، اخلاقی مدد نے ہمارے ڈگمگاتے قدموں کی لرزشوں کو سنبھالا، سہارا دیا، اب جبکہ گہری محبت کا کوہ قامت سفر آخرت پر روانہ ہو چکا ہے ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی نئے فرمانروا کو بھی ایک دن ’’سلمان پاکستانی‘‘ سے نام سے پکاریں گے۔ پاک سعودیہ تعلقات کی گرمجوشی بڑھنے کے ساتھ اس امر کو بھی ملحوظ رکھیں گے کہ عام پاکستانی نہ تو مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہے اور نہ ہی دہشت پھیلانے کے کسی پروگرام میں شامل یا معاونت فراہم کرنے والا ہے۔
سعودی سرزمین پر مقیم قانونی دستاویزات اور غیر قانونی کاغذات میں فرق کرنا اور ان کا تدارک بہت ضروری ہو چکا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ، شناختی دستاویزات کے ذریعے برمی، افغانی، بنگالی جو گند پھیلا رہے ہیں نئے سعودی بادشاہ اس کا اولین فرصت میں نوٹس لیں اور ممکن بنائیں کہ جب کوئی پاکستانی چاہے مزدور ہو، مقیم ہو، زائر ہو یا پھر امیر، اشرافیہ کا خاص فرد، ائر پورٹ پر اُتریں تو ان کو ایک ہی طریق سے ہینڈل کیا جائے، ائر پورٹ پر یکساں عزت کے ساتھ سفری لوازمات، داخلے کی ضروری شرائط کم سے کم وقت میں پوری کرنے کا بطور خاص حکم فرمائیں۔ ’’شاہ سلمان پاکستانی‘‘ ہمارے دل حرمین پاک کی بلند ہوتی اذانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ دونوں حرمین پاک کی تصاویر دیکھتے ہی آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جس کے باشندے ہزاروں مرتبہ زیارتوں کے باوجود بھی سیر نہیں ہو پاتے۔ پاکستانی ہر لمحہ دعا کرتے ہیں کہ عمرہ، حج کا مقدس سفر نصیب میں ہو اور بار بار ہو۔ نئے ’’شاہ سعودی عرب‘‘ کو بادشاہی مبارک ہو۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024