ٹینشن، ٹینشن، ٹینشن، ہر کسی کو ٹینشن لگی ہے۔ کسی کو گھریلو مسائل کی ٹینشن ہے، کسی کو کاروبار، روزگار، بچوں کی تعلیم و پرورش کی۔ جو ان معاملات سے مبرا ہے اس کیلئے سیاست ٹینشنبنی ہوئی ہے۔ ان کیلئے نسخہ کیمیا یہ ہے کہ صرف پی ٹی وی پر ’’حکومت نامہ‘‘ دیکھا اور ’’شریف نوازوں‘‘ کے کالم پڑھا کریں، افاقہ ہو جائیگا۔ دہشت گردی ہر پاکستانی پر یکساں عذاب بنی ہوئی ہے، جو اس کا شکار ہُوا گویا دنیا کے غموں سے نجات پا گیا، اسکی ہر ٹینشن ختم، البتہ لواحقین عمر بھر آنسو بہاتے اور حکمرانوں کو کوستے رہیں گے۔ حکمران دہشت گردی سے محفوظ، ان کی نسلیں مامون، پاکستان میں کاروبار دُگنی، بیرونِ ممالک تگنی ترقی پر ،عوام کیلئے صرف تگنی کا ناچ ہے۔ دہشت گردی سر پھرے لوگوں نے ہم پر مسلط کی، مشرف کیس کو ہم نے خود اپنے لئے ٹینشن بنا لیا۔ مشرف کے مخالف اور حامی ہتھیلی پر سرسوں جمتی ہوئی دیکھنا چاہتے ہیں۔ حامیوں کی پلک جھپکتے میں بیرون ملک روانگی کی خواہش، مخالف غداری کیس منطقی انجام تک پہنچتا دیکھنے کے آرزو مند، شدید مخالف پھانسی گھاٹ جانے کیلئے بے تاب، سرور محل جانے اور اور پھر آنے کی بے قراری کا مظاہرہ کرنے والے ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘ کر دکھانا چاہتے ہیں۔ کسی کی خواہش، حسرت اور تمنا پر پابندی نہیں لیکن ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ مشرف کیس کو زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا ہے وہ خصوصی عدالت میں پیش نہیں ہو رہے گویا پیروں کو مہندی لگی ہے آنے جانے کے قابل نہیں ہے۔ فردِ جرم عائد کئے بغیر کیس جام اور مشرف اسی سبب ہسپتال میں جام ہیں۔ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ڈاکٹروں کے بورڈ نے کہا کہ مشرف کی بیماری پیچیدہ اور غیر متوقع ہے وہ بیرون ملک علاج کرانا چاہتے ہیں۔ اس پر تین قسم کی رائے ہے مشرف کے وکلا سمیت کئی حلقے اس رپورٹ کو مصدقہ اور مشرف کی بیماری کو حقیقت قرار دیتے ہیں۔ کچھ شک کا اظہار کرتے ہیں ۔ مشرف کے مخالف وکلا سمیت کئی بیماری کو ڈرامہ سمجھتے ہیں۔ اکرم شیخ تو کہتے ہیں کہ مشرف صحت مند ہیں ان کے دل کی دھڑکن 18 سالہ نوجوان اور سپورٹس مین کی طرح ہے۔ شیخ صاحب نے اے ایف آئی سی کی رپورٹ پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ وہ اس رپورٹ پر غیر فوجی ڈاکٹروں کا بورڈ بٹھانا چاہتے ہیں۔ جن لوگوں کو یقین ہے کہ مشرف صحت مند ہیں تو کیا وہ دعا کریں گے کہ اللہ ان کو بھی مشرف کی طرح کا ’’ صحت مند‘‘ کر دے؟
حکومتی حلقوں میں فوج کی طرف سے مشرف کی حمایت کا تاثر پایا جاتا ہے،یہ حکمرانوں کی ٹینشن ہے ۔ مشرف کے وکلا نے عدالت میں ’’فوج کے خلاف بات کرنے والوں کو چیر پھاڑ کے رکھ دوں گا‘‘ جیسے تند و تیز بیان دے کر فوج اور حکومت کو آمنے سامنے لا کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشرف کا علاج فوجی ہسپتال میں ہو رہا ہے اگر بورڈ کی رپورٹ درست ہے تو مشرف علاج کیلئے چلے جائیں گے۔ باالفرض اگر رپورٹ درست نہیں جیسا کہ اکرم شیخ کہہ رہے ہیں تو بھی اسے درست ماننا پڑے گا کیونکہ یہ فوج نے جاری کی ہے تو بھی مشرف چلے جائیں گے۔
مشرف کو یہ بیماریاں غداری کیس پرذہنی دبائو یا خوف کی وجہ سے لاحق ہوئی ہیں۔ علاج کیلئے ذہنی دبائو کا ہٹنا ضروری ہے۔ آپ کے جتنے بہترین ادارے اور ڈاکٹر کیوں نہ ہوں بیماری کا محرک دور کئے بغیر علاج ممکن نہیں۔ غداری کیس ان کے سر پر لٹکتی تلوار ہے اسے ہٹانا پڑے گا۔ وہ تین میں سے کسی ایک صورت سے ہی ممکن ہے -1 غداری کیس ختم کر دیا جائے ۔شاید ایسا ہو جائے۔ مشرف نے 31 جولائی 2007ء کی ایمرجنسی کے خلاف فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کی۔ اس پر 14 رکنی بنچ 29 جنوری سے سماعت شروع کر رہا ہے -2 علاج کیلئے کمانڈو باہر چلے جائیں گے -3 غداری کیس 1999ء سے 18 اگست 2008ء کو استعفیٰ تک ساتھ دینے والوں پر بھی چلے اس سے مشرف کی ٹینشن کم اورگُم گشتہ ہزاروں حاشیہ برداروں اور کاسہ لیسوں کی شروع ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے (جوسرِدست ممکن نہیں) تو اس کیلئے جج امپورٹ کرنے پڑیں گے۔ اگر معاملات جنرل ضیاء کی آمریت سے شروع ہو جائیں تو آج کے سارے سیاستدان ’’ گئے‘‘۔ سکندر مرزا کے مارشل لا سے آغاز ہوا تو ان کے آبائو اجداد قبروں میں پڑے راندۂ درگاہ ہوں گے۔ یہ مشکل تو نظر آتا ہے ناممکن نہیں۔ اس کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ جنرل ضیأالحق کے قریبی ساتھی اور وزیر داخلہ نسیم آہیر نے تین چار سال قبل کہا تھا ’’امریکی انخلاء کے ساتھ ہی انہیںگلیاں اور بازارسرخ ہوتے نظر آرہے ہیں۔‘‘
دہشت گردی کا عذاب ٹلتا ہُوا نظر نہیں آ رہا کیونکہ حکمران اشرافیہ میں اس کے خاتمے کی وِل اور وِش ہی نہیں ہے۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ حکمران لیڈر بن کے دکھائیں ہم ساتھ دیں گے۔ آج کے مسائل یقیناً کوئی منڈیلا اوار مہاتیر جیسالیڈر ہی حل کر سکتا ہے۔گاڑی کو کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے۔ رِنگ پسٹن بیٹھ گئے، ریڈی ایٹر لیک، شیشے ندارد، سیٹیں پھٹی ، دروازے ٹوٹے ہوئے، چھت زنگ آلود ہے۔اس کے لئے ماہر مکینک کی ضرورت ہے۔یہ سب ڈرائیور کے بس کی بات نہیں لیکن ہمارے حکمران ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے عوام کو دھکا لگانے پر مجبور کر رہے ہیں۔عوام دھکا لگانے پر تیار نہیں بلکہ معیشت کو مضبوط بنانے کے شوق میں ان کا اتنا خون نچوڑا گیا کہ ان میں دھکا لگانے کی سکت ہی نہیں۔
معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے حکمران وسائل کو نظر انداز کر کے ٹیکسوں پر انحصار کرتے ہیں۔ آپ صرف نمک کی ایکسپورٹ پر توجہ دیں تو ایک سال میں خوشحالی آ سکتی ہے۔ نمک سیکڑوں ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔ ہمالین نمک کا متبادل پوری دنیا میں نہیں۔ بھارت کو بھی پاکستان نمک برآمد کرتا ہے۔ وہاں فی کلو قیمت 200 روپے ہے، ہر جاپانی نہاتے ہوئے صابن کی ٹکیہ کے سائز کی نمک کی ٹیکہ اپنے جسم پر ملتا ہے، جس سے مسام کھلتے ہیں۔ ہمارے ہاں نمک کی قیمت مٹی سے بھی کم ہے اور اسی قیمت پر نمک برآمد کیا جاتا ہے۔ اگر آپ نمک کی برآمد پر توجہ دیں تو ماہرین کے مطابق سالانہ 42 ارب زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا تو یہ بھی ہر پاکستانی کیلئے ایک ٹینشن ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38