بھارتی حکومت نے نریندرمودی کی سر براہی میں پاکستان سے امن مذاکرات سے انکار کر رکھا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نریندرمودی سے قبل جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت تھی تو اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی امن بس کے ذریعہ واگہہ سے لاہور پہنچے اور پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ مینار پاکستان کے سائے میں گھڑے ہوکر آپ نے اپنی معرکة الآرا¿ نظم "ہم جنگ نہیں ہونے دیں گے"پڑھی۔ آج سے ٹھیک 18برس قبل فروری 1999 میں جب واجپائی امن کی دعوت دینے پاکستان آئے تو اسکے صرف چار ہ ماہ بعد پاکستان فو ج کے سپہ سالار جنرل پرویز مشرف کے زیر قیادت کارگل کا معرکہ پیش آیا جسکے بعد سے پاک ۔بھارت تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پہ کھڑے ہوگئے۔قابل غور بات یہ ہے کہ بی جے پی جو سنگھ پریوار کا سیاسی جز ہے اور کٹّر، انتہاءپسند ہندوﺅں پہ مشتمل ہے جس نے قیام پاکستان کو کبھی قبول نہیں کیا، اسکے سربراہ اٹل بہاری واجپائی امن یاترا پہ پاکستان آئے لیکن پاکستان نے یہ موقع ہاتھ سے کھودیا۔ اسکے باوجود 2004جنوری میں سارک چوٹی کانفرنس پہ واجپائی اسلام آباد آئے اور جنرل پرویز مشرف جو نواز شریف کی منتخب حکومت کاتختہ الٹ کرپاکستان کے صدر بن چکے تھے، ان سے بھارتی وزیراعظم نے جامع مذاکرات کرنے کا وعدہ لیا۔ یہ واجپائی کی سیاسی سمجھ بوجھ کانتیجہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کانگریس حکومت کے دور میں 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد جامع مزاکرات کا سلسلہ رک گیا۔ 2014 میں بھارتی وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد نریندر مودی نے ابتدا¿ میں پاکستان سے امن مذاکرات کرنے کا وعدہ کیا لیکن جلدہی انکا شدت پسند ، اسلام دشمن روپ سامنے آگیا اور انہوں نے پاکستان سے مذاکرات کرنے سے نہ صرف انکار کررکھا ہے بلکہ اسے نیچا دکھانے، غیر مستحکم کرنے اور دنیا میں بدنام کرنے کی سازشوں میں مشغول ہیں۔ پاکستان میں دہشتگرد حملوں کی پشت پناہی کے علاوہ ہر عالمی فورم میں پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دے کر اسکے خلاف پابندیاں لاگو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 14فروری 2017 کو آل انڈیا ریڈیو کے دوپہر ساڑھے تین بجے نشر ہونیوالا اردو پروگرام "جہاں نما"کے مطابق ممبئی میں منعقدہ سیکنڈگیٹ دوے آف انڈیا جیو اکنامک ڈائلاگ سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی امور خارجہ کے وزیر مملکت جناب ایم جے اکبر نے فرمایا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشتگردی ہے۔ بھارتی وزیر نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ مذاکرات ناممکن ہیں جو ایک ہاتھ میں سکرپٹ تھامے ہیں اور دوسرے میں بندوق۔ جب یہ لوگ بندق نیچے رکھ دینگے تو ان سے آہنگی اور بقائے باہمی کی جانب بڑھنے کا راستہ مل جائیگا۔ ایم جے اکبر نے اس امر پہ زور دیا کہ بندوق کے سائے میں ڈائیلاگ ممکن نہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جس تقریب سے ایم جے اکبر خطاب کر رہے تھے اس کا انعقاد ممبئی کے تاج ہوٹل میں ہوا۔ بھارتی وزیر مملکت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حاضرین کوباور کرایا کہ2008 میں 26نومبر کو (مبّینہ) دہشتگردوں نے محاصرے میں لےکر اس عظیم الشان ہوٹل کے مکینوں کو یر غمال بنا لیا تھا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی قابل وزیر نے اپنے خطاب میں حاضرین کو یادودلایا کہ قتل وغارت اور دہشت گردی کے باعث شدید نقصان اٹھانے کے باوجود یہ ہوٹل دوبارہ اپنی پرانی رونقیں قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اور یہی بھارت کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ایم جے اکبر نے زور دیا کہ امن کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔ جنوبی ایشیاءدنیا میں میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے لیکن اسکے عوام اپنی حقیقی صلاحیت کو نہیں پہنچ پاتے کیونکہ علاقے میں جاری تشّدد انکی راہ میں روکاٹ ہے۔یہاں دو امور قابل غور ہیں۔ اول تو یہ کہ مرکزی حکومت بشمول نریندرمودی ، انکے قومی سلامتی امور کے مشیر اجیت دوول، وزیر خارجہ سشماسوراج، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ پاکستان سے مزاکرات کو ردکر چکے ہیں پھر بھی ایم جے اکبر جیسے وزیر مملکت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو خارج از امکان نہیں قرار دیتے صرف شرطیں عائد کرتے ہیں کہ پاکستان دہشتگردی کی سرپرستی ترک کردے۔دوسری جانب پاکستان کوتباہی کے دہانے پہ پہنچانے کی خاطر بھارت ہر قسم کے ہتھکنڈے آزمارہا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی" راء" اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ پاکستان میں دہشتگرد حملے کررہی ہے۔ راءکاسنیئر اہلکار کمانڈر کلبھوشن یادو جو بلوچستان میں شورش بپاکر نے کی سازش میں ملوث رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا، نے اقرار گیا کہ راءکے اہلکار بلوچستان میں نوجوانوں کو گمراہ کرکے بغاوت پہ اکسانے ہیں انہیں تخریب کاری کی تربیت دینے کے علاوہ ، اسلحہ دھماکہ خیزمادہ اور رقم فراہم کرکے تشدد، دہشتگردی ،قتل وغارت کی وارداتیں کراتے ہیں۔پاکستان پہ دباﺅ ڈالنے کی خاطر افغان سرزمین استعمال ہورہی ہے۔ اس چھوٹے سے ملک جہاں 38برسوں سے خانہ جنگی بپا ہے، بھارت نے اپنے سفارت خانے کے علاوہ 4 قونصل خانے اور دس تجارتی مشن قائم کررکھے ہیں۔ اتنے بھارتی اور تجارتی مشن تو امریکہ میں بھی نہیں جو ایک براعظم کے برابر ہے۔ افغانستان میں واقع یہ بھارتی تجارتی اور سفارتی مشن راء کے ایجنٹوں کا گڑھ ہے جو تحریک طالبان پاکستان کے ارکان اور گمراہ بلوچوں کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کا جال بچھانے میں مصروف عمل ہیں۔ علاوہ ازین افغان خفیہ ایجنسی ''این ڈی ایس" بھارت کے زیر اطاعت ہے اور اسے پاکستان کیخلاف سازشیں کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ بھارت خود تو پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرتا آرہا ہے اور ساتھ ہی افغانستان میں امن کی خاطر پاکستان کی طالبان کو مذاکرات پہ آمادہ کرنے کی کوششوں کو بھی این ڈی ایس کے ذریعہ سبوتاژ کررہا ہے۔پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کا محور ماضی میں مسئلہ کشمیر تھا لیکن اب مودی سرکارکشمیر کو متنازعہ کہنے کے بجائے یہ اعلان کر چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جبکہ آزاد جموں وکشمیر ، گلگت اور بلتستان بھی بھارت کا حصہ ہیں اور پاکستان انہیں واپس کرے ۔ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے کی خاطر بھارت نے چین سے احتجاج کررکھا ہے کہ اسے روکا جائے کیونکہ یہ کشمیر ، گلگت اور بلتستان سے گزرتی ہے جو بھارت کا حصہ ہے لیکن پاکستان کا غاصبانہ قبضہ ہے۔پاکستان کو بھارت کی امن مذاکرات کے انعقاد میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش اور دوغلے پن کو ظاہر کرنے کی خاطر سفارتی سرگرمیاں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38