پاکستان جب سے دہشت گردی کا شکار ہوا ہے مختلف حکومتوں اور آرمی چیفس کے دور میں کئی اپریشن کئے جا چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے آپریشن راہِ راست شروع کیا،جنرل کیانی نے راہِ نجات ،جنرل راحیل شریف نے ضرب ِعضب اور جنرل باجوہ نے رَدِالفساد۔ اب تک جنرل راحیل کے ضربِ عضب نے کمال کامیابی حاصل کی ہے۔اللہ کرے اس سلسلے کی آخری کڑی رَدِالفساد ہو۔ملٹری آپریشن بلا شبہ وقت کی ضرورت ہوتے ہیں۔ ان کی کامیابی یقینی اعتبار سے ملکی سلامتی کیلئے بڑی اہم ہوتی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ آپریشن کی کامیابی کے بعد کے مراحل کو ہماری حکومتیں اور عوام سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اسی وجہ سے ہمیں ہر چارپانچ سال بعد دوبارہ اسی جگہ سرجری کرنا پڑتی ہے جہاں پہلے بھی کی گئی ہو، اس سے بالکل جسم ہی کی طرح ریاست بھی کمزور ہوتی ہے۔ دفاع پاکستان محض جغرافیائی سرحدوں اور ملک کے اندر فوجی آپریشن کا نام نہیںبلکہ دفاع پاکستان مجموعی طور پر ملک کے اندرونی اور بیرونی دفاع کا نام ہے۔ سرحدوں کی حفاظت تو فوج کر سکتی ہے ۔لیکن ملکی معاشرت اور قوم کا انفرادی اور اجتماعی کردار حکومت، والدین، اساتذہ، دانشور، مذہبی رہنما اور میڈیا تشکیل دیتا ہے۔جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے پاکستانی افواج ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا عمل بھی بنگالی معاشرت میں پاکستانیت کی کمی کی وجہ سے ہوا۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں ہوں یا اندرون ملک دہشت گردی اور انتہائی پسندی یہ سب کچھ پاکستانی معاشرت کے اندر سے پروان چڑھی ہیں۔پاکستانی حکمرانوں نے اس اعتبار سے اپنی قومی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اسی طرح ہمارے تعلیمی ادارے اور اساتذہ بھی قومی کردار کی تشکیل میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکے۔ مذہبی رہنماﺅں نے عوام کو روحانی تسکین اور اخلاقیات کی تعلیم دینے کی بجائے گروہ بندی، فرقہ واریت اور انتہاپسندی پر اکسایا۔ پاکستان کی 69سالہ سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنیوالے با آسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اس ملک کے" کھیون ہاروں" نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔سوچنے کی بات ہے کہ دو تہائی اکثریت کے وزرائے اعظموں کے ساتھ ساتھ غیر ملک سے درآمد کردہ حکمران بھی دیکھ چکے پھر بھی ہم اب تک پٹری پر سے کیوں اترے ہوئے ہیں۔ یہ ہیں وہ سوال جن کا جواب پاکستانی قوم پوچھ رہی ہے۔ایک ایسا ملک جسے نظریاتی بنیادوں پر حاصل کیا گیا ہو اور جوہری طاقت بھی رکھتا ہے وہ اس صورتحال سے آ خر کیوںدوچا ر ہے ؟ حقیقت احوال یہ ہے کہ ہم نے تحریک پاکستان میں شامل ہجوم کو ایک تربیت یافتہ قوم نہیں بنایا۔ محض گروہی مفادات اور حصول اقتدار کی خاطرہی منصوبہ بندی کی۔ قوم کی تعمیر کے بنیادی تقاضوں کی طرف توجہ نہ دی۔ ٓاپنے نظریے ،نظام تعلیم، قومی زبان اور قومی لباس کی عزت و تکریم کیلئے ہم نے کچھ نہ کیا۔ خارجہ پالیسی کے اعتبار سے ہمارے ہمسا یہ ممالک ہم پر کس قدر مہربان ہیں اس کا اندازہ بھارت ایران اور افغانستان کے رویوں سے ہمیں ہو چکا ہے آخر یہ سب کچھ کیوں ہے؟ ہم کیوں اس بند گلی میں پہنچے ہیں اسکے عوامل اور ان کا تجزیہ سنجیدگی سے کرنے کی بجائے رائی کے پہاڑ اور ریت کے بند تو باندھے ہیں لیکن قوم کی کردار سازی کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔ قومیں ماں کی گود اور تعلیمی اداروںمیں تشکیل پاتی ہیں۔ کیا ہم نے پاکستانی ماں کی صحت اور تربیت کیلئے کبھی سوچا ؟ کیا ہم نے تعلیمی اداروں کے احوال اور انکی بنیادی ضرورتوں کی طرف کبھی قومی سطح پر تو جہ دی؟ استاد جسے ہم روحانی باپ کہتے ہیں ۔ معاشرے میں اسکی کیا قدر منزلت ہے؟ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بیانات اور عمل کا تضاد قوم کے سامنے ہے ۔ایک سیاسی رہنما دوسرے کے بارے میں کیا خیالات رکھتا ہے۔ انکے الفاظ اور القابات کو ضبط تحریر میں لانا اخلاقیات کی "بھد" اڑانا ہے۔تعمیر وطن کا آخری موقع ہمارے ہاتھ ہے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو گرفت کمزور نہیں کرنی چاہئیے۔ قومی ایکشن پلان اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ اگر اس میں زرہ بھر بھی عزم اور غضب کی کمی ہوئی تو سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائےگا اور آئندہ آنیوالی نسلیں نوار شریف اور جنرل باجوہ کو اس کا مورد الزام ٹھہرائیں گی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ہمارا وطن گزشتہ کئی عشروں سے جس دہشتگردی اور کرپشن کا شکار ہے اسے دور کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
دہشتگردی اور کرپشن کو ختم کرنے کے اس مرحلے میں اب" بڑی مچھلیوں" پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے اور یہی مرحلہ انتہائی اہم ہے۔ مثال ہے کہ "جب درخت گرتا ہے تو شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں"اسی کے مصداق اگر دہشت گردی، انتہاپسندی ، فرقہ واریت، بد عنوانی اور اخلاقی بے راہ روی پھیلانے والوں اور غیر ملکی دشمنوں کو پناہ دینے والے "ہول سیل ڈیلرز" پر اگرصحیح ہاتھ پڑ گیا تو اصلاح و احوال کی منزل حاصل کرنا مشکل نہ ہو گا۔ہمیں بقول اقبالؒ"محو غم دوش" ہونے کی بجائے "فکر فردا"کرنی ہے ۔ آج ہم جو منصوبہ بندی کریں گے تو اس کا پھل آنےوالی نسلوں کو ملے گا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں انکی قیادت نے مستقبل کی جو منصوبہ بندی کی اور جن اہداف کا تعین کیا آنےوالوں نے انہیں حاصل کر کے اپنی قوموں کو نا قابل تسخیر بنا دیا۔ چین ، امریکہ اور کئی دوسرے ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن جو قومیں "فکر فردا"چھوڑ کر اپنے حال میں مست رہیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی ختم کرنے کیلئے جن تجاویز پر قومی قیادت نے اتفاق رائے کیا ہے ان پر عمل در آمد سے اس عفریت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔انسداد دہشت گردی فورس، خصوصی /فوجی عدالتوں کا قیام، انتہا پسند مذہبی تنظیموں اور فرقہ واریت پر حقیقی پابندی، دہشت گردی کے فنڈز کو روکنا،افغان پناہ گزیرنوں کی رجسٹریشن اور واپسی، قومی میڈیااور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا اور نصاب تعلیم کی اصلاح سبھی ایسے پہلو ہیں جن کو کسی بھی طرح نظر انداز کرنا پاکستانیت کو ختم کرنے کے مصداق ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024