فرخندہ شمیم‘ زندگی کو خود تلاش کرنے والی قلم کارہ
فرخندہ شمیم ہمارے اس عہد میں اپنے ڈھب کی ایک ایسی لکھاری ہیں جو زندگی اور روشنی کے مابین راستے خود تلاش کرتی اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب و توسیع دیتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں تو پتہ چلتا ہے ایک کاروان ان کے ہمرکاب ہے اور وہ اس کاروان کے ہر فرد کو جانتی اور پہچانتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے قلم کی جولانیوں کو تنہائی سے بچاتی ہیں۔ روشنی ان کے نزدیک ایک آس اور ایک سہارا ہے جو زندگی کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ ان کی تحریریں اور شعری کاوشیں بتاتی ہیں کہ وہ اکیلا جینا نہیں چاہتیں‘ سب کے ساتھ سانس لینا اور زندہ رہنا چاہتی ہیں‘ اس لئے ان کی چاہتیں سب کے لئے ہیں۔ ڈاکٹر احسان اکبر نے خوب کہا ”فرخندہ شمیم کے ہاں محبتوں کی نعمت فرد
کی سطح پر بھی ملتی ہے اور اوپر اٹھتے ہوئے قومی و وطنی سطح پر بھی۔“ اس حوالے سے دیکھیں تو ان کی آدرش ہی زور قلم بن کر ابھرتی اور بعض صورتوں میں سر چڑھ کر بولتی ہے۔ ان کی کتاب ”ماں“ کا شعری اسلوب اس کی واضح مثال ہے۔ یہ کتاب کیا ہے ؟ ماں کے گرد طواف کرتا ہوا ایک جہان ہے ‘ جس کی دسترس میں روشنی ہے اور زندگی بھی، انہوں نے اپنی آنکھ سے ماں کا ملکوتی سراپا اور ماں کی آنکھ سے سارے جہان کا طلسم دیکھنے کی جسارت کی ہے۔ یہی جسارت انہیں بڑا لکھاری اور بڑا انسان بناتی ہے۔ ان کے قلم کا اوڑھنا‘ بچھونا پیار‘ محبت اور روحانی سرور ہے۔ اس راہ سے وہ ایک مجذوبہ لکھاری سی بھی لگتی ہیں۔ زندگی کا چلن کوئی ان سے سیکھے جس میں طلسم ہوشرباءکی سی کیفیت ہے۔ انسان کو موہ لینے والی محبت بھی اسی چلن کا حصہ ہے۔ فرخندہ شمیم سعادت مند ہیں کہ انہوں نے اپنے قلم کو تقدس مآب ہستیوں کی روحانی اقدار سے بھی بہرہ مند کیا‘ یہی جہت ان کے لکھے ہوئے کو امر بنا دینے کے لئے کافی ہے۔
فرخندہ شمیم خارزار صحافت اور ادب کی ایک ایسی شناور ہیں جنہوں نے جہد مسلسل اور سعی پیہم کا بن باس حوصلہ مندی کے ساتھ کاٹا۔ اس لئے ان کی قلم کاری اور شعری اسلوب میں ازحد حرکی جوہر ملتا ہے۔ زندگی کے سرد و گرم سے آشنائی حاصل کرنے والی قلم کی اس مجاہدہ کے شاہدین اور ناقدین دونوں کا اصرار بجا ہے کہ سچائی کی علم بردار اس لکھاری کی بات سنی جانی چاہئے‘ اس لئے کہ اس کے کہے اور لکھے ہوئے کو وسیع تجربے‘ مشاہدے اور مجاہدے نے کندن بنا دیا ہے۔ یہ بھی لازم ہے کہ افسانہ نگاری اور شاعری کا دامن مضبوطی سے تھام کر خراماں خراماں چلنے والی اس قلم کارہ کو اقبالؒ کے فرمودہ میری اس فکر پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کے معیار پر دیکھا اور پرکھا جائے۔ جہاں قاری پر محرم راز درون مہ خانہ کے کئی عجائبات کھل جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ فرخندہ شمیم کی تخلیقات کو فن کے معیار پر نہ پرکھا جائے‘ یقیناً ایسا کرنے والوں کو بھی ان کے فن بارے مایوسی نہیں ہو گی۔ دراصل جرات مندی سے جدید اختراعی ذہن کے ساتھ لکھنا طرز کہن سے لڑنے کے مترادف ہے اور یہ کٹھن کام سہل بھی نہیں۔ پھراس جسارت سے بہت سے نقادوں کا ہاضمہ بھی خراب ہو سکتا ہے۔ تاہم فرخندہ شمیم اپنے ڈھب کی منفرد شاعرہ و ادیبہ ہونے کے ناتے یہاں بھی پوری استقامت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ان کے قدم ڈولتے ہیں‘ نہ وہ دیکھنے والوں کو لڑکھڑاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ نظم میں ان کی اختراعات بولڈ ایکسپیریمنٹ کے زمرے میں آتی ہیں اور غزل میں اسلوب کی نئی راہیں تلاش کرنے کی خو اہشں انہیں ممتاز بناتی ہے۔ ان کی بہت سی غزلیں ادبی حلقوں میں معروف ہوئیں۔ اس لئے جب بھی غزل یا نظم کے نئے ذائقے تلاش کرنے والوں کی فہرست بندی ہوئی اس میں فرخندہ شمیم کا نام بھی خصوصیت کے ساتھ درج ہو گا۔
فرخندہ شمیم کی شخصیت دیومالائی سی لگتی ہے‘ ان کی قدرے ٹھہری ہوئی مسکراہٹ کے پیچھے سنجیدگی کا ایک حالہ ہے ‘ جو انہیں دانش و بصیرت سے ہمکنار کرتا نظر آتا ہے‘ گفتگو میں ٹھہرا¶ اور حد درجہ متانت کے متاثر کن پہلو¶ں نے ان کی شخصیت کو جاذب ہی نہیں بنایا بلکہ اس میں دانائی بھی بھر دی ہے‘ سٹیج پر بولتے ہوئے اور لہک لہک کر شعر پڑھتے ہوئے وہ ایک سکہ بند مقررہ اور شاعرہ کی طرح سامعین کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں‘ چونکہ صدا کاری اور عکس بندی کے تمام لوازمات سے بہرہ مند ہیں اس لئے ایک فنکارہ بھی صحافتی پیشہ ورانہ امور میں ان کے باطن میں موجود رہتی ہے۔ فرخندہ شمیم کی آواز ٹیلی ویژن کی سکرین پر بہت بھلی لگتی ہے‘ جس میں معصومیت اور حرف و صوت کی عرق ریزی کمال کی ہے‘ ایسا لگتا ہے
جیسے یہ آواز قدرت نے ٹیلی ویژن کی سکرین کے لئے ہی اختراع کی ہے۔ رنگوں کے کھلتے ہوئے امتزاج کے ساتھ وہ جو بھی لباس زیب تن کرتی ہیں‘ اس میں بہت اچھی لگتی ہیں اور محفل میں براجمان ہو کر دوسروں کو اپنی جانب متوجہ بھی کر لیتی ہیں۔ ان کی شخصیت کا ہمہ جہت پہلو دوسروں سے ہم کلام ہونا ہے‘ متانت بھرے لہجے میں گفتگو دوسروں کو موہ لیتی ہے۔ وہ اپنے بہی خواہوں کے لئے اتنے ہی خیر خواہی کے احساسات رکھتی ہیں‘ جتنے انہیں موصول ہوتے ہیں‘ ان جذبات میں خیر اور بھلائی کی خواہشات ہوتی ہیں‘ برے وقت میںدوسروں کا خیال رکھنا فرخندہ شمیم کی عادت ہے جو انہیں موروثیت میں ملی ہے۔ ابھی ان کے قلم نے بیچ منجدھار تک کا سفر طے کیا ہے‘ ان کی اٹھان ایسی ہے جس سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ وہ آج کل لکھنے کی طرف جس تندہی سے مصروف ہیں ‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کی نثر اور شاعری کا چرچا اور زیادہ ہو گا۔ لوگ انہیں پڑھیں گے اور ان کی کتابیں سٹال پر پڑی ہوئی پڑھنے والوں کو اپنی جانب کھینچ رہی ہوں گی۔