فوجی عدالتوں کا آغاز ہو چکا ہے یاد پڑتا ہے ماضی میں ڈارک جسٹس کے عنوان سے ایک انگریزی ٹی وی سیریز کئی عوامی حلقوں میں بہت مقبول ہوئی جس میں ایک اداکار کو ایک جج کا مرکزی کردار نبھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے دلچسپ انداز میں کہانیوں کے سلسلہ کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب جج موصوف ایک مقدمے کی سماعت کے دوران فریقین اور وکلاء کے بیان کردہ متضاد حقائق اور قانونی حوالہ جات کے گورکھ دھندوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور مقدمہ کی سماعت موخر کرتے ہوئے آنکھوں پر قانون کی سیاہ پٹی اتار پھینک کر گہرے چشمے لگائے بھیس بدل کر خفیہ طور پر جائے واردات پر پہنچ جاتے ہیں اور حقائق اکھٹے کرتے ہیں اور معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور اگلے روز سماعت کے دوران تمام بیان کردہ حقائق اور قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملزم کو سزائے موت سنا دیتے ہیں خلق خدا خوش ہوتی ہے تا ہم متاثرہ وکیل فریق و دیگر راز افشاء ہونے پر اسے ڈارک جسٹس کے نام سے منسوب کرتے ہیں جج موصوف کی طلبی ہوتی ہے لیکن آواز خلق، نقارہ خدا اس کے لئے ڈھال بن کر نا صرف اسے کسی تادیبی کارروائی سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ مستقبل میں ایسی طرز عمل کے ذریعے سزا سنانے بلکہ خود سزا دے دینے کے عمل تک لے جاتی ہے۔
خاکسار نے اپنی پولیس میں تعیناتی کے دور میں کئی اوقات کم و بیش پولیس کو ایسا ہی ڈارک جسٹس خلق خدا کو فراہم کرتے دیکھا ہے جسے ہم عرف عام میں ’’پولیس مقابلہ‘‘ کہتے ہیں اور اس کے غیر قانونی ہوتے ہوئے بھی چند مقدمات کی حساسیت اور خلق خدا کے دلوں میں مجرموں کے لئے ان کے سر زد کردہ انسانیت سوز اور بھیانک جرائم کو پیش نظر ہم مبینہ ماورائے عدالت اقدامات کی صورت میں سزا کو تسلیم کرتے نظر آتے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کئی بھیانک مجرم از خود قانون کی آڑ میں اپنے آپ کو جیل میں ڈلوا لیتے ہیں کہ کہیں جیل سے باہر آزاد وہ کسی ایسے ہی ڈارک جسٹس یا کالے انصاف کی بھینٹ نہ چڑ جائیں اور جیل کے اندر پر آسائش اور تحکمانہ زندگی بسر کرتے رہتے ہیں لیکن جب بھی کسی گہرے چشمے والے جج یا افسر کی نظر ایسے اشخاص پر پڑتی ہے تو ایسے مجرمان کا منطقی انجام بہر حال نظر آنا شروع ہو جاتا ہے اخباروں میں ماورائے عدالت ڈارک جسٹس یا کالے انصاف کی سرخیاں لگتی ہیں تا ہم کئی اطراف خلق خدا خفیہ اور اعلانیہ خدائی انصاف کا ان الفاظ میں چرچا کرتی نظر آتی ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور اس کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔
جہالت اور بربریت کی انتہا ہوتی ہے کہ کسی ایک علاقے میں سات بہنوں کے ایک اکلوتے پانچ سالہ گمشدہ معصوم بھائی کی ہڈیاں چھ ماہ بعد اسی گھر کے ملازم قاتل کی نشاندہی پر کسی بیلے میں زمین میں دفن ملتی ہیں جس نے اس معصوم کی دونوں آنکھیں نکال کر کسی جعلی پیر کو عمل کی غرض سے پیش کرنی ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں اسی معصوم مقتول کی بہن سے اس ملازم کی شادی ممکن ہو سکے معصوم کی نعش کی برآمدگی پر مجرم کے اعتراف جرم پر خلق خدا میں خوف و ہراس اور غم غصہ کو تو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا تا ہم کسی مبینہ ڈارک جسٹس یا کالے انصاف نے عوام کے دلوں میں اللہ کی موجودگی پر ایمان کو ضرور تقویت بخشی ہوگی۔
ڈارک جسٹس کو بہر حال کسی صورت جائز و قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ چشم فلک نے اسی کالے انصاف یا ڈارک جسٹس کی آڑ میں کئی معصوم اور بے گناہ جانوں کو بھی کسی طمع نفسی اور ذاتی عناد کی بھینٹ چڑتے ہوئے بھی ضرور دیکھا ہوگا۔ قانون کے طالب علم کی حیثیت سے فوجی عدالتوں کو محض اس حد تک تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے گھمبیر حالات کے پیش نظر انہیں آہنی تحفظ حاصل ہو چکا ہے اور یہ کسی حد تک دہشت گردوں کے خلاف عوام اور ریاست کو فوری اور سستا انصاف مہیا کرنے کی حامل نظر آئیں اور ملک میں روشن جسٹس کی فراہمی کے لئے قائم عدالتوں اور اداروں کے شانہ بشانہ ملک اور قوم کو کچھ ایسا انصاف بھی ایک معینہ مدت تک فراہم کرتے ہوئے واپس چلی جائیں گی۔ جسے ہم آج کالے انصاف یا ڈارک جسٹس کے نام سے منسوب کرتے نظر آتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024