لوگ کہتے ہیں پاناما اپنے انجام کو پہنچ گیا، لیکن میں کہتا ہوں پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے پاناما پر جو فیصلہ سنایا اُس پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ پوری شدومد سے جاری ہے۔ ہر کوئی اپنی سیاسی وابستگی، سوچ اور خواہش کے مطابق اس فیصلے پر تجزیہ اور تبصرہ کر رہا ہے۔ مگر قانون کیا کہتا ہے بہت کم لوگوں کی اس پر نظر ہے۔ جب لارجر بنچ کا فیصلہ آیا تو مٹھائیاں ن لیگ نے بھی تقسیم کیں اور تحریک انصاف نے بھی۔ ہر کسی نے اسے اپنی فتح قرا ر دیا۔ اگرچہ فیصلے کے بعد عمران خان نے بنی گالہ میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس کی اور فیصلے کو اپنی ’’فتح‘‘ کہا۔ مگر ہر کیمرے کی آنکھ نے دیکھا کہ عمران خان سمیت اُن کے دیگر ساتھیوں کے چہرے مرجھائے ہوئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی تو کسی گہری سوچ میں رہے۔ عارف علوی، جہانگیر ترین اور دیگر کا بھی یہی حال رہا جو اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے انہیں خوش نہیں کیا۔ شاید وہ کچھ اور چاہتے تھے۔ کچھ اور ہی توقع لگائے بیٹھے تھے لیکن اُن کی وہ توقع پوری نہیں ہوئی۔ وہ یہی چاہتے تھے کہ سپریم کورٹ اُن کی پٹیشن پر ایسا فیصلہ دے کہ نواز شریف اسمبلی کی نشست سے نااہل ہو جائیں۔ ’’نااہل‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہوتا کہ انہیں وزیراعظم کے عہدے سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے۔ چونکہ نواز شریف اپنے عہدہ پر برقرار ہیں اور وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو ن لیگ اسے اپنی فتح قرار دے رہی ہے اور خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ نے انہیں کوئی کلین چِٹ نہیں دی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی وہ پاناما الزمات سے بری الزمہ قرار نہیں پائے۔ اگر چہ پاناما میں نواز ِشریف کا نام شامل نہیں اُن کے تین بچوں حسن، حسین اور مریم کا نام ہے۔ لیکن اگر بچوں پر الزامات کا سارا بوجھ پڑتا ہے اور وہ اپنا صاف دامن لے کر اس کیس سے باہر نہیں نکلتے تو کیس کا سارا بوجھ نواز شریف پر آ جائے گا۔سپریم کورٹ نے اب پاناما معاملہ جے آئی ٹی کے سپرد کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔ لیکن اس فیصلے کو تحریک انصاف سمیت پیپلز پارٹی نے مسترد کر دیا ہے، اپوزیشن کی جانب سے اب پاناما کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔ یہ وہ ’’معاملہ‘‘ ہے، تحریک انصاف یا عمران خان پہلے جس کی بھرپور انداز میں مخالفت کر چکے ہیں۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا رُخ اختیار کرتا ہے۔ کیا جے آئی ٹی ہی قائم ہو گی یا جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی نیا حکم جاری کیا جائے گا۔ بادی النظر میں تو ہمیں ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جے آئی ٹی ہی بنی تو کیا اپوزیشن پاناما پر اُس کی تحقیقات کو قبول کر لے گی؟ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایک بار پھر ملک میں شدید سیاسی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ ن لیگ کے سامنے بھی یہ تمام سوالات ہیں۔ اس حوالے سے نواز شریف کی زیر صدارت ایک اعلی سطحی اجلاس بھی اسلام آباد میں ہو چکا ہے۔ نواز شریف اور اُن کے رفقاء مطمئن ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کے حکم پر مکمل عملدرآمد کریں گے۔ اگر پاناما انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بھی بنتا ہے تو وہ اسے بھی قبول کر لیں گے۔اب معاملہ کس طرف جائے گا؟ اس کے بہت سے سیاسی اور قانونی مضمرات ہیں جو آنے والے دنوں میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ ن لیگ کے مقابلے میں قریباً تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ صرف مولانا فضل الرحمن کی جماعت حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ ایسے میں گمان غالب ہے کہ پاناما کی انکوائری یا تحقیقات کے لیے اپوزیشن کے مطالبے پر غور نہ کیا گیا تو معاملہ بگڑ کر ایجی ٹیشن کی صورت میں سڑکوں پر آ سکتا ہے جس سے کشیدہ صورت حال پیدا ہو سکتی ہے اور امن و امان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔نواز شریف کا دامن صاف ہے تو انہیں خود سپریم کورٹ سے استدعا کرنی چاہیے کہ اپوزیشن کے مطالبے کے مطابق جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا جائے۔ ن لیگ ایسا کرتی ہے تو یہ اُس کی بڑی سیاسی، اخلاقی اور قانونی کامیابی ہو گی اور اپوزیشن کو بھی احتجاج کے لیے کوئی راستہ نہیں ملے گا۔تحقیقات واقعی ایسی ہونی چاہیے کہ جس پر سب کا اعتماد ہو۔ جے آئی ٹی اپوزیشن کو منظور نہیں تو اس سے باز رہا جائے۔ فیصلہ ایسا ہونا چاہیے جس پر اپوزیشن ہی کو نہیں پوری قوم کو بھی اعتماد ہو۔ ہمیشہ نیوٹرل فیصلے مانے جاتے ہیں۔ کسی بھی فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ فیصلہ وہی اچھا ہوتا ہے جسے سب مانیں اور تسلیم کریں۔ اگرچہ پاناما پر جے آئی ٹی کا فیصلہ سپریم کورٹ کا اپنا فیصلہ ہے۔ ا س کے لیے ن لیگ یا کسی اور جماعت نے درخواست نہیں کی۔ اسی لیے اس فیصلے میں تبدیلی کا اختیار بھی سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ امید ہے وہ جے آئی ٹی پر نظرثانی کرتے ہوئے کوئی بہتر فیصلہ کرے گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024