پچھلے کالم کے ابتدائیہ میں لکھا تھا کہ یہ کالم بغیر کسی تمہید کے اور باتیں صرف اشارے کنائیوں تک محدود رہیں گیئں۔ سوچا تھا کہ اسطرح اپنی بات بھی کہہ جائینگے اور سوشل میڈیا پر پھیلے قلمی دہشتگردوں کی چیرہ دستیوں اور بدکلامی سے بھی محفوظ رہیں گے لیکن پانامہ کیس کا فیصلہ لکھنے والے عدالت عالیہ کے معزز جج صاحبان نے فرانسیسی ناول گارڈ فادر سے مستعار لئے جملہ کو لیڈ بنا کر عوام الناس کو اصل حقیقت بتانے کے ساتھ ساتھ اپنی ادبی حِس کے پہلو کو اْجاگر کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اْنھوں نے اس خاکسار جیسے بْزدلوں کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ حق کی بات کرنے میں کبھی کوئی حجاب نہیں برتنا چاہیے۔ دوستو کہتے ہیں اچھے کام کی پیروی کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے لہذا معزز جج صاحبان کی quote کی گئی اس حقیقت میں آج کے کالم کی توسط سے سقراط کے اس قول کے ذریعے کہ " تباہ و برباد ہو گئی وہ قوم جنکی باگ ڈور تاجروں کے ہاتھ میں آ گئی " کا اضافہ کرکے اوپر درج حقیقت کو اور واضع کرنے کی ایک ادنیٰ کاوش کر رہا ہوں۔ قارئین 20 اپریل کو سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آیا اور 21 اپریل کو مفکر پاکستان علامہ اقبال کی برسی تھی جو پانامہ کے اس ہنگامے میں اسطرح دب کر رہ گئی کہ اس خاکسار کو اپنی قوم کی اس احسان فراموشی، اخلاقی پستی اور بدحالی پر رونا ہی نہیں آیا بلکہ یہ یقین ہو گیا کہ جو قومیں اپنے محسنوں کی رخصتی کے بعد اْنھے فراموش کر دیتی ہیں بیشک پانامہ جیسی غلاظتیں ہی انکے مقدر کا حصہ بنتی ہیں۔
دوستو پانامہ کیس کے حوالے سے پچھلے ایک ہفتے سے پرنٹ میڈیا پر جو پڑھنے کو مل رہا ہے اور الیکٹرانک میڈیا پر جو دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے اْس تناظر میں مال اور عزت کے حوالے سے ایک قِصّہ جسکی صداقت بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن سوشل میڈیا پر مختلف حوالوں سے طنزاً کئی دفعہ پوسٹ ہو چکا احتیاطً الفاظ کی ترتیب بدل کر کچھ اسطرح رقم کرنے کو دل کر رہا ہے کہ شائستگی کا عنصر قائم رہتے ہوئے کسی کے جذبات کو ٹھیس بھی نہ پہنچے اور مفہوم بھی واضع ہو جائے لیکن کیا کرؤں مرشد کا فرمان اور ادارے کی پالیسی اولین ترجیح ہے اسلیئے واقعہ کی تفصیل میں جانے کی بجائے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومتی اکابرین کی طرف سے جس خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے اس پر اس واقعہ میں جہاں گھر والوں کی مال کی بجائے عزت لْٹ گئی تو موقع پر پہنچے اس پولیس والے کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جو اس نے اس گھر والوں کو ہمدردی میں کہے بڑی شدت سے یاد آ رہے ہیں کہ "مٹی پاؤ عزت تے شکر کرؤ جان تے مال بچ گیا جے"۔ اس فیصلے کے بعد یہاں بس اتنا کہنے پر ہی اکتفا کرونگا کہ "مٹی پاؤ عزت تے مبارک ہوے کرسی تے بچ گئی اے"۔
اب اتے ہیں سپریم کورٹ کے اصل فیصلے کی طرف تو اسکے متن اور الفاظ کی implications کے حوالے سے انشاالہہ اگلے کالم میں بات ہو گی لیکن سرِ دست اتنا ہی کہونگا کہ معزز عدلیہ کے جن دو سنیئر ترین جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں defendants کے حوالے سے اپنے جن تحفظات اور خیالات کا اظہار کیا ہے اور الفاظ کی صورت میں انکے کردار پر جو مہر ثبت کی ہے وہ واقعتاً یقینناً اور حقیقتاً تاریخ کا ایک یادگار حصہ رہے گی اور بیشک اسے صدیوں یاد رکھا جائے گا باقی یہ اپنی اپنی سمجھ، ظرف، برداشت اور حوصلے پر منحصر ہے کہ کوئی اس سے اپنے لیئے کونسا مطلب نکالتا ہے۔ قارئین غور فرمائیں میں نے لفظ سمجھ اور ظرف کے ساتھ دو اور لفظ برداشت اور حوصلے پر زور دیا ہے اسکی تشریح میں اگر کچھ بیان کروں تو یہ ایسے ہی ہو گا جیسے ایک اندھا انکھوں والوں کو راستہ دکھانے چل پڑے۔ اپ میرے ان دو الفاظ سے بہت کچھ سمجھ گئے ہونگے۔ یقین جانیئے جس دن یہ فیصلہ اناونس ہوا اور اسکے بعد میڈیا سے گفتگو کیلیئے حکومتی اکابرین جن میں اکثریت سنئیر ارکان کی تھی ان کی طرف سے مائیک کی دسترس کے لیئے جو دھکم پیل اور دھینگا مْشتی دیکھنے کو ملی اسے دیکھ کر اپنی ذہنی اخلاقی اور عملی بد حالی پر صرف رونا ہی نہیں آیا ماتم کرنے کو بھی دل کیا۔ یقین جانیئے جس دن سے یہ پانامہ لیکس کا معاملہ شروع ہوا ہے اس دن سے اس دنگل کے دو بڑے اکھاڑوں کی طرف سے مختلف پہلوان مائیک پر بجلیاں گرانے کیلیئے جس طرح ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا باری بیان دیتا، اسے دیکھ کر لگتا کہ یا تو یہ اشخاص اپنے حصے کا رٹا ہوا سبق پڑھنے کیلیئے اتے ہیں یا پھر جسطرح مختلف تقریبات میں بھانڈ اپنی باری دیتے ہیں یا کسی ماتم پر جسطرح دیہی علاقوں میں عورتیں بین کرتے ہوئے اپنی باری دیتی ہیں میرے ذہن میں تو انکے لیئے ان کیفیات کا تاثر اْبھرتا ہے باقی اپ کیا محسوس کرتے ہیں یہ میں اپ پر چھوڑتا ہوں۔ حکومتی ارکان کی یہ چابکدستیاں تو سمجھ میں اتی ہیں کہ انکے پیچھے کچھ مخصوص مفادات کا حصول ہو سکتا ہے اور ویسے بھی یہاں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی کا طعنہ دیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف وہ فریق جو اپنے آپکو سقراط اور افلاطون کی اولاد سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے اہل علم اور اہل شعور ہونے کے قلعے باندھتے دکھائی دیتے ہیں ان سے اسطرح کا مسخرہ پن سمجھ سے بالاتر دکھائی دیتا ہے۔ یقین جانیئے تاریخ میں جب بھی اس حکومت کی ناکامی اور رخصتی کے اسباب جاننے کی کوشش کی جائیگی تو بلا شرکت غیرے مائیک پر انے والے ان حکومتی اکابرین کی کم علمی ،اخلاقی اقدار سے بیگانگی اور ذہنی بلوغت کی عدم موجودگی اس زوال میں سرفہرست ہو گی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر جو لوگ ہر طرف سے سب اچھا کی آوازیں بلند کر رہے ہیں انکے لیئے صرف اتنی عرض ہے کہ یہ فیصلہ ایک خاموش تلوار کی مانند ہے اور یہاں پر ہمارے ایک بہت ہی خوبصورت دوست اختر اعوان صاحب جو اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سنیئر ایڈوکیٹ بھی ہیں اکثر یہ شعر پڑھتے ملتے ہیں۔ خاموشی ہے جان لیوا کچھ شور ہونا چاہیے ہاں مگر ماتم نہیں کچھ اور ہونا چاہیے۔ بہت یاد آ رہا ہے۔ باقی الہّہ خیر کرے موسم اور سیاست دونوں میں شدت اور حدت کے واضع امکانات پائے جاتے ہیں۔