اسوقت ملک میں لگ رہا ہے جمہوریت اپنے پورے عروج پر چمک رہی ہے ، مگر اس جمہوریت کا مزہ صرف اشرافیہ کیلئے ہے ، عوام کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیںاسکے علاوہ کہ جلسے جلوس شروع ہوچکے ہیں کچھ بے روزگار لوگوں کو روز کی دھاڑی مل جائے گی، اگر جلسہ ہوا تو ڈیکورشن والوںکو کرایہ مل جائیگا، اچھی کرسیاںلوگ اٹھا کر بھی لے جاسکتے ہیں، لائوڈ اسپیکر ، اور تحریک انصاف کا لایا ہوا نیا کلچر ( ڈ ی جے ) جو ہر تھوڑی دیر بعد بے ہنگم موسیقی اور گیت لگا کر سامعین کو ناچنے کے مواقع فراہم کرے گا ، تحریک انصاف کے سیاست میں آنے سے قبل بچیوں، خواتین کا جلسوں میں ’’ تھرکنا ـ‘‘ برا سمجھا جاتا تھا اب اسکی قید بھی ختم ہے اس میں اب جنس کی کوئی قید نہیں رہی ۔سیاسی جماعتیں کروڑوں روپیہ اسطرح جلوس جلسوں میں ا س امید پر بہادینگے کہ اگر کامیاب ہوگئے تو یہ رقم منافع کے ساتھ اسی عوام اور ملک کے اداروں سے نکال لینگے ۔ پانامہ کا ہنگامہ تقریبا ختم ہوگیا ، تمام سیاسی جماعتیں جو حزب اختلاف سے تعلق رکھتی ہیں وہ سپریم کورٹ سے امید لگائے بیٹھی تھیں اور یہی بیان دے رہی تھیںکہ عدالت عالیہ کا فیصلہ ’’سر آنکھوں پر ‘ مگر ایسا نہ ہوسکا ، چونکہ ہماری یہ روش ہوگئی ہے کہ بات وہ ہی صحیح ہے جو ہماری خواہشات کے عین مطابق ہو ۔ سپریم کورٹ کی دوران سماعت اگر حقیقت سے دیکھا جائے تو کچھ میڈیا، اور سیاست دان جس میں حکومتی اراکین اور حزب اختلاف خصوصی طور پر تحریک انصاف والے توہین عدالت کے مرتکب ہوتے رہے مگر ہمارے ادارے چاہے قانون نافذ کرنیوالے ہوںیا انصاف فراہم کرنے والے وہ ان چیزوںپر کوئی قدغن نہیں لگاتے ( شائد یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے ) ہمارے ادارے اب اتنی ’ در گزر ‘‘کرنے کے عادی ہوچکے ہیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری انکی جماعت کے کچھ لوگ ملک کی اعلی قوتوں ( افواج پاکستان، اور حساس اداروں ) کے متعلق جو چاہے بول دیں انہیں لگتا ہے سب کچھ معاف ہے ۔ بالکل اسی طرح جسطرح سرے محل ، اور سوئس بنکوںکی رقم معاف ہوگئی ہے ۔ میاںنواز شریف اور انکے صاحبزادوں سے پوچھ گچھ جاری ہے ،اسے ہم جمہوریت کہہ سکتے ہیں ، جبکہ سرے محل ، سوئس بنک، ڈاکٹر عاصم ، شرجیل میمن ، خاتون ایان علی ، حج کرپشن یہ سب کسی پانامہ کا حصہ نہیں بلکہ ایک پوشیدہ NRO کا حصہ ہیں ۔ تمام معاملات میں جو مزے دار بیان لگا وہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کا تھا جب انہوںنے کہاکہ ذرداری صاحب کی جانب سے کرپشن کیخلاف بیان کو ’قیامت کی نشانی ‘ قرار دیا ، اگر وزیر داخلہ قیامت کی نشانی نہیںبلکہ قیامت کی نشانیاںکہتے تو زیادہ بہتر تھا ، چونکہ یہ کام بہت سے لوگ کررہے ہیں ’’ نو سے چوہے کھاکر ‘‘ والا مسئلہ ہے ۔جب ملک کا وزیر داخلہ یہ کہے کہ خورشید شاہ یا اعتزاز احسن کے معاملات کھول دیں تو وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے ۔ چوہدری صاحب عوام تو سب کچھ سننے کو تیار ہیں اسلئے اس میں ’تو ‘ کا لفظ نہ لگائیں عوام کو بتا ہی دیں تاکہ آپکی cridibility تو بنے ، ان بیانات سے لگتا ہے کہ وزیر داخلہ جو پی پی پی کو خواب میں بھی نظر آتے ہیں انکے تمام معاملات اگر کوئی اور بھی ہیں تو وہ سامنے لائیں وگرنہ لگتاہے کہ انکے ہاتھ کسی اور نے نہیں انکی اپنی پارٹی نے ہی باندھ رکھے ہیں۔ ایم کیوایم کے خلاف ثبوتوںکے حوالے سے عمران خان، ذ ولفقار مرزا اور وزیر داخلہ کے بیانات اور کاوشوں سے پہلے ہی عوام کا کوئی بھلا نہ ہوا ۔جبکہ لوگ کہتے ہیں نعرہ لگاتے ہوئے ’ ایک ذرداری سب پہ بھاری ‘ اس نعرے کے عملی ثبوت کے طور پر وہ پانچ سال حکومت کرتے رہے ، شہید بے نظیر بھٹو کی میاں صاحب کے دل میں بہت قدر تھی انہیں ہمیشہ انہوںنے ایک جمہوریت پسند لیڈر تسلیم کیا ، پرویز مشرف کی مہربانی سے جدہ میں گزارے ہوئے لمحات میں جب میثاق جمہوریت کا تذکرہ شروع ہوا ، شہید بے نظیر نے جدہ میں انکی رہائش گاہ پر میاںنوازشریف سے تفصیلی ملاقات کی ، اور جمہوریت کی خاطر ایک دوسرے نے مکمل حمائت کی یقین دہانیاں کرائیں ، بے نظیر سے ملاقات کے بعد میاں صاحب کے ہمراہ انکی رہائش گاہ پر اسی شام ایک عشائیہ پر بات چیت کرنے کا موقع ملا ، میاں صاحب اخبار نویسوں اور دوستوںسے رائے لینا چاہتے تھے ، میاںصاحب نے بتایا کہ میں نے پہلے والی بے نظیر جو اقتدار میں تھیں اور آج کی بے نظیر میں بے حد فرق محسوس کیا ہے ، انکا نظریہ جمہوریت کے معاملے پرمضبوط ہے ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ مشرف جائے۔ میری رائے تھی کہ میاںصاحب ،جب بی بی آپکی حمائت میں بیان دیتی ہیں یا آج جو ملی ہیں وہ انہوںنے واضح پیغام مشرف کو دیا ہے اب وہ زیادہ مضبوط انداز میں مشرف سے بات کرینگی ، مشرف کی آپ سے مخالفت ہے ، اب مشرف بی بی کی باتوںکو بہت سنجیدہ لے گا تاکہ بی بی آپ سے اتحاد نہ کرسکیں، میاںصاحب کو میرا تجزیہ کوئی زیادہ اچھا نہ لگا اور انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ آپکو حالات کا علم نہیں ، اب بے نظیر یا پی پی پی وہ نہیں جو پہلے تھی۔ کچھ دن بعد میاں صاحب جدہ سے لندن چلے گئے ، پاکستان میں میثاق جمہوریت دونوںکی ملاقات کے نتیجے میں بنایا گیا ، ایک دن ٹی وی پر دیکھا ، وہ بے نظیر جن سے مشرف ملنا پسند نہیں کرتے تھے ، وہ دوبئی میں پرویز مشرف سے ملاقات کررہی تھیں اور جمہوریت کیلئے ان سے بات چیت کررہی تھیں، میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی میاںنواز شریف کو لندن فون کیا اور پوچھا ’ میاں صاحب ٹی وی خبریں دیکھ رہے ہیں ؟؟ ہم نے آپ سے کیا کہا تھا ، آپکی جدہ کی ملاقات کے نتیجے میں اب دونوںکی ملاقات ہوچلی ہے ، میاںنواز شریف کا معصوم سا جواب تھا ’ خان صاحب کس پر بھروسہ کریں ؟ اس کہانی کو لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی کیساتھ ساتھ پی پی پی کے بیانات تبدیل ہونا شروع ہورہے ہیں وہ ایک مرتبہ پھر میدان میں آئینگے کوئی تیسری جماعت میدان میں نہ آئے ، سیاست کا بہت علم رکھتے ہیں پی پی پی کے تمام انکل ’ جمہوریت ‘ کی خاطر وہ کل تحریک انصاف سے بھی مل سکتے ہیں چونکہ نہ تحریک انصاف اور نہ پی پی پی تنہا یہ کام نہیں کر سکتی اسلئے تحریک انصاف والے بھی یہ کہتے ہوئے کہ سیاست میں سب جائز ہے پی پی پی سے مل سکتے ہیں ۔ ان معاملات کا مقابلہ صرف اور صرف ملک میں عوام کو سہولیات پہنچا کر ہی ہوسکتا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024