سمجھ نہیں آتی محض خاک کا بٹوارہ، حد سرحد کی تقسیم اور ذاتی مفادات کی خاطر کروڑوں معصوم جانوں کا خون کس مذہب کے کس جہاد کے زُمرے میں آتا ہے؟ ایسا ممکن کیوں نہیں ہے کہ چار دن کی ناپائیدار مُستعار زندگی میں جسکا جہاں جی چاہے رہے، دو گز زمین پر آزادی سے چلے پھرے اور آخر کار دوگز زمین کے اُسی ٹکڑے پر سکون سے مربھی رہے صلح صفائی اور افہام و تفہیم کا اس سے بڑھ کر اور فائدہ کیا ہوسکتا ہے کہ یہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر قومی ہو یا بین الاقوامی پر ہو اس میں امن ہے، چین ہے، سلامتی ہے، سُکھ ہے، آشتی ہے اور سکون ہے۔ اگر کبھی دُںیا بھر کے دانشور ایک جگہ مل بیٹھ کر سوچیں تو یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جنگ ایک مکمل حماقت ہے بلکہ باقاعدہ پاگل پن ہے اسے بہرصورت ختم ہونا چاہیے!
ویسے کتنی عجیب بات ہے عام روزمرہ زندگی میں ایک انسان کے قتل کی سزا قانون نے پھانسی مقرر کی ہے لیکن ایسے بڑے بڑے قاتل ذہنوں کیلئے کسی قانون میں پھانسی کا کوئی حکم موجود نہیں ہے‘ یہ جو محض لکڑی کی میز پر بیٹھ کر یا جنگ کے کاغذی نقشے پر جھک کر چند لفظوں کی جنگ لڑتے ہیں اور اپنے دو الفاظ کے حکم سے لاکھوں جانوں کو بھون کر رکھ دیتے ہیں۔گہرائی سے سوچا جائے تو کیا یہ انسان اور انسانیت کے قاتلوں کی دانست اور شعور کی کُلی شکست نہیں ہے کہ انسان عقل کو عقل سے ‘دلیل کو دلیل سے اور جواز کو جواز سے مطمئن نہ کرسکے بلکہ انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے اسلحے سے ٹکڑوں میں تقسیم کر ڈالے؟ کیا انسان بنیادی طورپر اس قدر بُزدل ہے کہ وہ انسان کو الفاظ سے اور الفاظ کو الفاظ سے نہیں مارسکتا؟ بلکہ الفاظ ادا کرنے والے ہی کو بم سے اڑا دیتا ہے؟ آخر اسکے الفاظ، اسکی دلیل اور اسکی منطق کب اتنی مضبوط و مؤثر ہوگی کہ اُسے اسلحے کو ایجاد یا استعمال نہ کرنا پڑے؟ کیا اسلحہ یا بم انسان کو تسلیم و رضا تک پہنچنے یا پہنچانے کی کمزور ترین اپروچ نہیں ہے؟ فضا سے انسانی پوست و خون کی مسموم بدبو کب ختم ہوگی؟ کب دُنیا بھر میں اسلحہ ڈھلنے کے بجائے اناج اُگے گا؟ سروں سے سر کاٹنے کا سودا کب ختم ہوگا؟ بارود سے بھرے ہوئے ذہن، خالی پیٹوں کو چارے سے بھرنے کا چارہ کب کرینگے؟ کون اُن سے یہ کہے کہ خدا کے لئے امن کیلئے جنگ کرو جنگ کیلئے جنگ مت کرو، ذہن کو ذہن کے میدان میں شکست دو۔ بات سے بات کو ختم کرو، اختلاف کو موافقت کے سامنے لے آئو تاکہ ہر طرف انسانوں کی انتڑیوں کے گچھے نہ بکھرے پڑے ہوں زخمیوں کے زخموں میں پِیپ نہ بلبلائے، انکی ہڈیوں میں کیڑے نہ رینگیں، اعضاء خشک جھاڑیاں نہ بن جائیں اور آنکھیں مائع بن کر خون کی طرح نہ بہہ جائیں۔
کوئی نہیں بتاتا جنگ میں کام آجانے والوں کے بچوں، بیویوں، بھائیوں، بہنوں اور والدین کی رُوحانی اذیتوں، تنہائیوں اور نفسیاتی تباہیوں پیچیدگیوں کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ جبکہ جنگ کا ایک مضحکہ خیز پہلو یہ بھی ہے کہ جنگ میں انسان ہی انسان کو زخمی کرتا ہے، اُسے مار ڈالتا ہے، پورا ملک اُجاڑ دیتا ہے اور پھر گشتی ہسپتال بھی انسان ہی میدانِ جنگ میں بنا کر بیٹھ جاتا کہ کوئی زخمی آئے تو اسکا علاج کردے اگر مرجائے تو دفنا دے، اُسے اذیت میں دیکھے تو روپڑے، ملک راکھ بن جائے تو اُسے پھر سے آباد کرلے، زندگی جہاں ختم ہوجائے وہاں سے اسے دوبارہ شروع کرے اور جب مکمل طور پر بربادی سے پِنٹ لے تو پھر کوئی دوسرا ملک اُس پر ایٹم بم پھینک کر اُسے زیادہ نابود کر ڈالے آخر کیوں؟ کیوں انسان، انسان کو مار رہا ہے ، بنا بنا کر اُجاڑ رہا ہے۔ طبعی موت سے پہلے قبرستان کیوں بھر رہا ہے؟ ساری کائنات بار بار اس عمل سے کیوں گذرے؟ تمام انسان ایک ہی بار اپنی اجتماعی حماقت کو کیوں خدائے لم یزل کے سامنے تسلیم کرکے معافی نہیں مانگ لیتے اور اُسے صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم تیری نعمتوں کو اپنی زندگیوں کو‘ کائنات کو نہیں سنبھال سکے بلکہ نہیں سنبھال سکتے لہٰذا یہ واپس لے اپنی کائنات اسکی راکھ اور خاک کو سنبھال لے۔ کبھی کسی نے یہ سوچا کہ کیا انسان کا انسان کو مارنا، نعوذ باللہ خود خدا بن جانے کے مترادف نہیں ہے؟ کیا یہ خداوندکریم کے عطا کئے ہوئے اعتبار و اختیار سے تجاوز بلکہ غداری نہیں ہے؟ کیا انسان دوسرے انسان کے مرنے جینے کا فیصلہ خود اپنے ہاتھ میں لے کر خود اسکا مالک بن جانے کا نہیں سوچ رہا ہے؟ آخر کب انسان یہ سمجھے گا کہ اگر جنگیں ہر صورت روک دی جائیں تو دفاع خود بخود رُک جائے گا کیونکہ دفاع بھی بجائے خود جنگ ہے یقین کریں اسلحے کی تیاری بند کردی جائے تو اُس کی ترویج اور استعمال بھی ختم ہوجائے گا اور جب ایسا ہوجائے گا تو دُنیا خودبخود امن کا گہوارہ بن جائیگی۔ آئیے دُنیا کو امن کا گہوارہ بنائیں ہر قسم کی جنگ روک دی جائے ۔ انسان دو دن کی مُستعار زندگی کو خود اپنے لئے قابلِ برداشت بنانے کیلئے صرف فطرت مخالف عناصر سے جنگ کرے اور جیت جائے ایک دوسرے سے جنگ نہ کرنے کا فیصلہ خود اُسی کے حق میں اُس کی حتمی جیت بن جائے گا…آزما لیجئے۔ (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38