زکواۃ اور بیت المال سے مستحقین کے مطالبات
ایک سروے رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب میں زکواۃ کمیٹیاں غیر فعال ہیں۔مستحقین بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ سیاسی رسہ کشی نے ان اداروں کو مفلوج کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے سینکڑوں طلبا و طالبات تعلیم سے محروم ہیں۔ غریب اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے سے قاصر ہیں۔ مریض جو پرائیویٹ علاج نہیں کرا سکتے سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے منتظر ہیں کیونکہ وہاں بھی علاج معالجہ کیلئے دوائیں خریدنی پڑتی ہیں۔ زکواۃ و عشر حکومت پنجاب کا سماجی ‘ فلاحی اور رفاعی ادار ہ ہے جو ۳۸۹۱ء میں سرکاری محکمہ قرار دیا گیا۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی بڑی حد تک کفالت کرتاتھا۔ یتیم بچوں اور بچیوں کیلئے مالی مدد بالخصوص یتیم بچیوں کیلئے جہیز فنڈ بیواؤں کیلئے بہبود فنڈ اور طلبا کیلئے خصوصی سکالرشپ‘ دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کو بھی خصوصی فنڈز کے علاوہ ٹیکنیکل ایجوکیشن اور پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے والے مستحق طلبا و طالبات کی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں خصوصی معاونت کرتے ہوئے وظائف کی رقم جاری کی جاتی تھی مگر اب فنڈز کی عدم دستیابی نے سینکڑوں طلبا و طالبات کو جہاں تعلیم سے محروم رکھا وہاں جہیز فنڈ کی مد میں ہزاروں درخواستیں دفاتر کی فائلوں تک محدود ہیں۔ غریب والدین لوکل زکواۃ کمیٹیوں کے چیئرمین کو مسائل سے آگاہ کرتے ہیں لیکن مسائل موجودہ حکومت نے کسی بھی سطح پر زکواۃ عشر کے حل نہیں کئے۔ صوبائی کونسل کو مسائل سے آگاہ کیا جاتا ہے تو وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ مقامی دفاتر میں مستحق افراد فارم مکمل کر کے روز چکر لگاتے ہیں لیکن انہیں وعدہ فردا پر ٹال دیا جاتا ہے۔ ایک بیوہ خاتون نے بتایا کہ زکواۃ کی رقم اگر سیاستدان اپنے گھر نہ لے جائیں تو معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہو جائے۔ غریبوں کے بچے بھوکوں نہ مریں۔ خودکشیاں نہ کریں۔ مستحقین کا کہنا ہے کہ پہلے باقاعدگی سے فنڈ ملتا تھا لیکن افسوس اب غریب اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے گداگری کرنے پر مجبور ہیں۔اسی طرح سوشل ویلفیئر کا ایک ادارہ بیت المال بھی ہے جو مستحقین کو تعلیمی وظائف‘ بیوگان اور یتیموں کو مالی مدد مہیا کرتا ہے لیکن یہ ادارہ بھی عملاً ختم ہو چکا ہے۔ ان اداروں کا عملہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ خواتین آتی ہیں تو انہیں دھتکار دیا جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ان کی تشفی کرا دی جائے۔ اس ادارے کی صورتحال بھی محکمہ زکواۃ و عشر سے مختلف نہیں ہے۔ اس ادارے کے ضلعی سربراہان کی تقرری بھی سیاسی رسہ کشی کا شکار ہے۔ صوبائی حکومت اپنے سیاسی حلیفوں اور گروپوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی بیشتر اضلاع میں ابھی ان اداروں کے چیئرمینوں کا تقرر نہیں ہو سکا جس کی بڑی وجہ مقامی سطح پر برسراقتدار جماعت کے اندر گروہ بندی ہے جس سے بچنے کیلئے تا حال سربراہان کا تقرر نہیں کیا جا سکا اور اگر تقرری ہو چکی ہے تو گرانٹ نہیں ملی تاکہ مستحقین کے مسائل حل ہو سکیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اگر کسی معذور‘ طالب علم‘ بیوہ یا کسی بھی مستحق کا مسئلہ حل کرانا چاہیں تو انہیں صوبائی بیت المال کمیٹی سے کرانا پڑتا ہے۔ ہر غریب‘ بے سہارا شخص کی پہنچ ایم پی اے‘ ایم این اے تک تو نہیں ہوتی۔ معاشرے میں بگاڑ کی یہی وجہ ہے جس کا تعلق صاحب اقتدار تک ہے تو اس معذور و مستحق کیلئے ملازمت بھی معذوری کے کوٹہ سے مل جاتی ہے اور جس گھرانہ کے ووٹ زیادہ ہیں تو اس گھرانے کے کسی فرد کو نائب قاصد کی ملازمت بھی مل جاتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں صرف غریب لوگ علاج کیلئے جاتے ہیں آپ کسی وارڈمیں رات کے وقت دیکھ سکتے ہیں کہ لواحقین جو مریض کے ساتھ آتے ہیں وہ سخت سردیوں میں کھلے آسمان یا درختوں کے نیچے سوئے ہوئے ہیں یا وارڈ کے کسی برآمدے میں رات کتنے کرب میں گزارتے ہیں اور اسی طرح موسم گرما میں بھی دوپہر درختوں کے نیچے ہی گزار دیتے ہیں۔ اگر حکومت توجہ دے تو ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لوگوں کیلئے زکواۃ و عشر کا محکمہ یا بیت المال سے سرائے تعمیر کرا دیں تاکہ مریضوں کے لواحقین کو کچھ تو آسانی میسر ہو۔ ہسپتالوں کے سربراہان کو بھی چاہئے کہ وہ ہسپتالوں کے اضافی بلاکس بنائے جانے کی سکیموں میں سرائے بنانے کے لئے تجاویز حکومتی اداروں کو بھجوائیں۔ محکمہ صحت کو بھی اس سلسلہ میں حکومتی ذرائع سے الگ شہر کے مخیر لوگوں سے رابطہ کر کے سرائے تعمیر کرنے کیلئے فنڈز جمع کرنے چاہئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہسپتالوں میں مریضوں کیلئے دو وقت کا کھانا بھی مخیر لوگ ہی دے رہے ہیں حتیٰ کہ ایمبولینس گاڑیوں کا بندوبست بھی ایسے لوگوں نے ہی کیا ہوا ہے۔
پنجاب حکومت کو بھی اپنے منصوبوں میں ایسے معاملات پر بھرپور توجہ دینی چاہئے صرف میٹرو‘ اورنج ٹرینیں یا بلیو ٹرینوں سے غریب عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ انہیں اصل مسائل سے آگاہی ہونی چاہئے۔ انتہائی غریب ‘ مساکین‘ بیوہ خواتین اور طلبا و طالبات کی تعلیم و صحت پر بھرپور توجہ دے اور محکمہ زکواۃ و عشر اور بیت المال کو مؤثر بنائے ان کے عہدیداران کو فوری طور پر بااختیار بنائے۔ تمام اضلاع کو فنڈز مہیا کرے تاکہ مستحقین کی بروقت داد رسی ہو سکے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے لواحقین کیلئے سرائے بنانے جیسے منصوبے بھی ان متذکرہ سرکاری اداروں سے مکمل کرائے اور یہ ایک منفرد سکیم ہو گی جو جنوبی پنجاب باالخصوص ڈیرہ غازیخان اور دور دراز سے آنے والے مریضوں اور لواحقین کیلئے بہترین سہولت ہو گی۔