نیب سے وابستہ قومی توقعات
قانون کی عملداری سے معاشرے میں انصاف کو فروغ حاصل ہوتا ہے تو بے لاگ اور غیر متنازعہ احتساب کا نظام شفافیت اور میرٹ کو فروغ دیتا ہے جس سے قومیں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا کی قیادت پر فائز ہو جاتی ہیں جبکہ آئین و قانون کو موم کی گڑیا بنانے کے عادی ممالک‘ ترقی کے سفر میں بہت ہی پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ نا انصافی ان کے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کی ترقی یافتہ بیشتر اقوام نے اپنے نظام حکومت میں قانون اور احتساب کو بنیادی حیثیت دے رکھی ہے ۔
پاکستان میں بھی ڈیڑھ عشرہ قبل اس مقصد کے حصول کے لیے قومی احتساب بیورو یعنی نیب کا ادارہ معرض وجود میں لایا گیا تھا جو کلیدی اہمیت کے حامل ان قومی اداروں میں شامل ہے جو ہمہ وقت کی اپنی چوکسی ،تحرک اور فعالیت کے باعث وطن عزیز کو کرپشن سے پاک اور حکومتی فیصلوں ومالی معاملات میں شفافیت لا سکتے ہیں تا ہم مختلف ذاتی ،جماعتی اور گروہی تعصبات میں ایک عرصے سے گھرے ہمارے حکمران طبقات کسی بھی ادارے کو اس کی روح کے مطابق آزادی عمل دینے کے لیے راضی نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ اڑان بھر نے کے لیے تیار کسی بھی قومی ادارے کو آگے بڑھ کر متنازعہ بنا دیا جاتا ہے اور یہی صورتحال آج نیب کوبھی در پیش ہے ۔
نیب کا ادارہ مشرف دور میں معرض وجود میں آیا تھا تا کہ احتساب کی شکل میں موجود خوف کی اس طاقت کو ریاستی وسائل لوٹنے کے ہمارے رویوں پر قد غن لگانے کے لیے استعمال کیا جاسکے جس سے قانون کی بالادستی کے راستے کھلیں اور خوشحالی ہمارا مقدر بن جائے لیکن بد قسمتی سے اپنی تشکیل کے آغاز پر ہی بعض سیاسی مصلحتیں نیب کے راستے کی رکاوٹ بن گئیں اور اس سے وابستہ بیشتر قومی توقعات نقش بر آب ثابت ہوئیں اگرچہ چند سال قبل نیب سے متعلق روشناس کرائی گئیں بعض آئینی ترامیم کے نتیجے میں آج کے نیب کو ماضی کے مقابلے میں کافی حد تک آزادی عمل حاصل ہے تا ہم آج بھی بعض سیاسی قوتوں اور جماعتوں کی طرف سے نیب کی کارکردگی اور امتیازی رویوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ بھی ماضی قریب میں نیب کو ایک مفلوج ادارہ اور قومی وسائل پر ایک ناروا بوجھ بھی کہہ چکی ہے ۔
آج پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد حال ہی میںبحیثیت چیئرمین ‘نیب کی رہنمائی پر فائز ہونے والے جسٹس جاوید اقبال سے توقعات وابستہ کیے ہوئے نظر آتی ہے کیونکہ موصوف بحیثیت ایک جج‘ ناصرف اپنی صلاحیتوں سے پاکستان کو مستفید کرتے رہے ہیں بلکہ انصاف کی یقینی فراہمی اور میرٹ کی بالادستی بھی اس قومی سفر میں ہمیشہ ان کا طرہ امتیاز رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک حساس موضوع اور نیشنل سکیورٹی سے متعلق اہم معاملات کی چھان بین کے لیے تشکیل دیے گئے ایبٹ آباد کمیشن کی سربراہی بھی جسٹس جاوید اقبال کو تفویض کی گئی جنہوں نے کئی مہینوں کی محنت و ریاضت سے ترتیب دیکر ایک مفصل دستاویز قو م اور متعلقہ اداروں کو پیش کردی تاہم اس رپورٹ کی اشاعت سیاسی قیادت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔
جب سے جسٹس جاوید اقبال نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اتفاق سے حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے متعددحلقوں کی انکوائریاں نیب میں تیزی سے زیر سماعت ہیںخاص طور پر پانامہ لیکس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں میاں فیملی کے خلاف نیب عدالتوں میں متعدد مقدمات زیر سماعت ہیں اسی طرح بعض اپوزیشن رہنمائوں خصوصاً سندھ اور کراچی میں بھی نیب کی سرگرمیاں روز افزوں ہیں جس پر بعض حلقے نیب پر پنجاب اور سندھ میں امتیازی رویے روا رکھنے کا الزام بھی لگاتے رہتے ہیں بہت ممکن ہے ان الزامات میں کچھ وزن بھی ہو جن کا ازالہ نیب کی بھی ذمہ داری ہے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ سے جڑے اپنے ماضی کے پیش نظر نیب کے موجودہ چیئر مین کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ وہ نیب اور عدالتوں کے مابین ایک پل کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان دنوں سالوں سے رکی ہوئی انکوائریاں بھی مکمل کی جارہی ہیں جس کے نتیجے میں قوم کے اندرایک بار پھر یہ امید انگڑائی لے رہی ہے کہ احتساب کے حوالے سے پاکستان کی قسمت بھی شاید جاگ اٹھے جسٹس جاوید اقبال نے اپنے دفتر میں ایک مقررہ تاریخ اور وقت کے تعین کے ساتھ شکایتیں خود سننے اور موقع پر احکامات جاری کر نے کا مستحسن فیصلہ کر کے قومی توقعات کو مزید جگا یا ہے یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ملک بھر میں سب سے زیادہ خبریں نیب اور احتساب کے حوالے سے ہی چل رہی ہیں اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور کسی طاقت ور ادارے کی طرف سے مداخلت نہ ہوئی یا برداشت نہ کی گئی تو وہ دن زیادہ دور نہیں جب پاکستان میں بھی احتساب کا عمل صرف ایک نعرے کی بجائے عملی شکل اختیار کر لے گا جس کے نتیجے میں کرپشن ،لوٹ کھسوٹ ،قومی وسائل پر قبضے اور مختلف اداروں کی طرف سے کوڑیوں کے عوض سرکاری وسائل بیچنے اور نوکریا ں فروخت کر نے جیسے گھنائونے رویے اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جس کے لیے اب پوری قوم کی نظریں موجودہ چیئر مین نیب اور ان کی پوری ٹیم پر مرکوز ہیں ۔