4 ستمبر 2017ء کو میرے سیل فون پر کسی محب وطن پاکستانی کا ایک پیغام موصول ہوا جو قومی جذبہ کی خاطر اہل وطن سے شیئر کر رہا ہوں۔’’وٹس اپ‘‘پر پیغام یہ سطور تھیں۔’’ کیا یہ ایک اتفاق ہے کہ چھ ممالک امریکہ،فرانس، جرمنی،کینیڈا، بھارت اور برطانیہ کے جو سفیر عراق کی تباہی کے وقت بغداد میں تعینات تھے وہی سفیر لیبیا کی تباہی کے وقت طرابلس میں اور شام کی تباہی کے وقت دمشق میں تعینات تھے۔ ان چھ ممالک کے وہی سفیر آج پاکستان میں تعینات ہیں۔ امید ہے کہ پاکستانی کسی قسم کی شعیہ، سنی، وہابی، دیوبندی، بریلوی، لسانی یا صوبائی تعصب کی واردات کا شکار نہیں ہوں گے۔‘‘ یہ پیغام ایک حقیقت ہے۔ اسرائیل اور بھارت پاکستان میں کھلم کھلا دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک پس پردہ کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں ہلا رہے ہیں یہ سب اسلام دشمن قوتیں ہیں۔اسلام دراصل سرمایہ داری اور سودی نظام کے خلاف تیغ بے نیام ہے۔ امریکی پروفیسر ہنٹنگٹسن نے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ میری نظر میں ’’نظاموں کا تصادم‘‘ہے ۔یہودو ہنود سودی سا ہوکار ہیں۔ اسلام ’’مساوات محمدی‘‘ کا دین ہے۔ پاکستان کا استحکام چین ،روس، ایران، افغانستان اور ترکی کے ساتھ مضبوط تعلقات پرمبنی ہے۔ اگر ان ممالک سے اتحاد کرکے ’’چھ ممالک‘‘پر مبنی بلاک بنایا جائے تو یہ ممالک امریکہ اور مغرب ممالک کے شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ رونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی عصر حاضر کے ہٹلر ہیں۔ خدا ان کے شر سے پوری دنیا کو محفوظ رکھے۔ اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ گئی تو دنیا کی تباہی و بربادی کا نقشہ وہی ہوگا جو ممتاز برطانوی فلسفی نے اپنی کتاب(HAS MANA FUTURE) میں کھینچا تھا نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بنسری۔ یورپ کی بقا بھی اسی میں ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کی غاصبانہ اور جارحانہ پالیسیوں کی مخالفت کریں اور تیسری عالمی ایٹمی جنگ سے دنیا کو محفوظ بنائیں۔ افسوس صد افسوس آج مسلمانوں کے بھی چند ممالک امریکہ اور اسرائیل کے حاشیہ بردار بن گئے ہیں۔ اسلام توحید پرستی اور بت شکنی کا دین ہے۔ حضرت ابراہیم نے بتوں کو پاش پاش کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر پیغمبر اسلام نے کعبہ میں نصب بت توڑ دیئے لیکن ایک عرب ریاست نے نریندر مودی کی آمد پر مندر یعنی بت خانہ بنانے کی اجازت دی۔ الحیا ذکا اﷲ۔ مذہبی بیزاری کی ایک وجہ پادریوں، پنڈتوں، بھکشوؤں ، مولویوں، پیروں اور گروؤں کی مذہب فروشی ہے۔ سادہ لوح عوام کو دعاؤں اور مناجاتوں میں لگا کر عملیت و عقلیت سے دور کردیا گیا ہے۔امریکہ اور یورپ میں بھی مذہبی رہنماؤں نے روحانیت کی سیل لگائی ہوئی ہے۔ نسل نو سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف مائل ہیں اور گر جاگھر ویوان ہو رہے ہیں۔ اجتہاد کے دروازے بند ہیں۔ ذہنی جمود مذہبی مکاشفات کا شاخسانہ ہے۔پادریوں نے انسان کی آزادی فکر کو صدیوں محبوس رکھا۔ آج تحریک احیائے علوم کی بدولت ذہن آزاد ہیں ملاؤں اور پادریوں کے مقابل سائنس دان اور دانشور آزاد دنیا میں قدرو منزلت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ میں سائنس دان اور فلسفی پیدا ہوئے۔ عقلیت، مادیت اور نیچریت کے سہ گانہ عناصر پر بنیاد فلسفہ رکھی گئی۔ ڈیکارٹ، ہابس، اسپنزا، لائیبنر، جان لاک اور نبیتھمنے عقلی اور فطری موضوعات سے تشکیل ذہن جدید کی۔ فلاسفہ کے علاوہ صدر اول کے سائنس دان وجود خدا کے اقراری اور اخلاقیات انسانی و رحمانی کے قائل تھے۔کو پرنیکس،کپلر ،گلیلیو اور نیوٹن صاحب ایمان لوگ تھے۔ بعد ازیں یورپ کے نامور فلاسفہ جان ٹولینڈ، ڈیوڈ ہار ٹلے، جوزف پر لیٹسلے اور والیٹئر منحرفین مذہب عیسائیت ہوئے۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاء اور کارل مارکس کے نظریہ معاشیات مبنی براشتراکیت نے باغیانہ،کافرانہ اور ملحدانہ فکر کو جنم دیا۔ برٹرینڈرسل نے’’میں عیسائی کیوں نہیں‘‘ لکھ کر پاپایت اور عیسائیت کی جڑوں پر ضرب کاری لگائی۔ طبعیات جدید کے باوا آئین سٹائین نے سائنس دان ہونے کے باوجود خدا کا اقرار کیا۔ موحدین اور منکرین کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مسلمانوں میں الخوارزمی، البیرونی، البطانی، جابربن حیان، ابن الہشیم، ابن مسکویہ، الکندی، ابن سینا، عمر خیام، ابن خلدون اور ابن رشد جیسے سائنس دان اور فلاسفر پیدا ہوئے مگر آج مسلمان کا ذہن بانجھ اور ایمان آتش فسردہ ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عصر حاضر میں بھی اسلام ترقی پذیر ہے۔ اسلام عقلی و فطری و سماجی و سیاسی و روحانی مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں تصور اجتہاد ہے جو کسی دوسرے مذہب میں نہیں۔ نئی نسل گرچہ مذہبی شعبدہ بازوں اور ملوکیت و ملائیت سے بے زار ہے لیکن وہ اسلام حقیقی کی طرف آرہی ہے۔
علامہ اقبال رجعت پرست نہیں بلکہ رجائیت پسند تھے۔ وہ اسلام کا مستقبل روشن دیکھتے تھے کیونکہ اب روشن فکر مسلمان اسلام ستعماری کو رد کرکے انقلابی اور حقیقی اسلام کا متلاشی ہے۔ المشائخ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی کا فرمان ہے کہ تین قسم کے لوگوں کی محفل سے پرہیز کرو۔غافل علمائ،خوشامدی فقراء اور جاہل صوفیائ، ارشاد قرآن ہے۔ جاہلوں سے کنارہ کشی کرو۔جہاں مباحثہ مناظرہ ہو وہاں حصول حق کہاں، مذہبی لوگوں میں مناظرہ بازی صدیوں سے جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گی۔اپنے مذہب کو مبنی برحقانیت ثابت کرنا اور دوسروں کے مذہب کو باطل قرار دینا ان مذہبی مناظروں اور جنونیوں کے فطرت ثانیہ اور شیوہ ہے جیسے ایک وکیل قاتل سے فیس لے کر اسے بے گناہ ثابت کرنے کے لئے دلائل کا سہارا لیتا ہے اور باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ایسے ہی پنڈت، پادری، بھکشو اور مولوی اپنے اپنے مذہب کے حق میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے اے پیغمبر مشرکوں اور کافروں سے احسن دلیل اور شائستگی سے مباحثہ کرو۔گویا ’’مباحثہ‘‘اور چیز ہے اور ’’مناظرہ‘‘اور چیز ہے ’’تکرار‘‘میں اور ’’تمحیص‘ ‘میں فرق ہے ’’تمحیص‘‘ آزادی رائے اور روشن فکری کا نام ہے جبکہ ’’تکرار‘‘کج بحثی اور ہٹ دھرمی کا نام ہے۔’’سورۃ الشورٰی‘‘ کی آیت نمبر 15میں رسول اللہ سے کہا جارہا ہے کہ آپ دین اسلام کی دعوت دیتے رہیں۔آپ کے اعمال آپ کے لئے اور ان کے اعمال ان کے لئے اور اب سے ’’تکرار‘‘سے اعراض کریں۔ یہی پیغام ’’سورۃ الکافرون‘‘ میں دیا گیا۔ تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہر شخص اپنے ایمان اور اعمال کا ذمہ دار ہے۔ تبلیغ دین کے لئے احسن اور بادلیل انداز اپنانے کا حکم ہے۔ دین تلوار سے نہیں بلکہ دلیل سے پھیلانے کا قرآنی حکم ہے نزول کتاب کا مقصد بھی سورۃ الکافرون میں بتادیا گیا ہے۔’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل کروں‘‘۔’’قیام عدل‘‘مقصد ادیان الہی ہے جو بھی اپنے دین کو حق اور خود کو برحق سمجھتا ہے تو وہ نظام زر و زور کو ختم کرکے نظام عدل قائم کرے ’’مکالمہ بین المذہب‘‘ کا مقصد بیان بازی ،تکرار اور ہٹ دھرمی نہیں بلکہ تلاش حق حقیقت ہونا چاہئے۔ مناظرہ بین المذاہب سے اجتناب قرآنی حکم ہے لیکن علاوہ ازیں مسلمانوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ فرقہ واریت اور مناظرہ بازی سے اجتناب کریں سورۃ الکافرون کی آیت نمبر 16 میں ارشاد ربانی ہے’’اور جو لوگ اﷲ کے دین کے بارے جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ اسے قائل کرلیا گیا ان کی بحت و تکرار ان کے رب کے نزدیک باطل ہے اور ان پر اﷲ کا غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے‘‘ اس آیت کا مطلب واضح ہے کہ کلمہ گو نظام عدل کے قیام کے بجائے۔ مسلکی، فقہی اور تاریخی اختلافات کو نہ ابھاریں۔فرقہ واریت سے بچیں اور نظام ظلم کی عالم اسلام کی مساجد میں زور و شور سے جاری ہے۔