”پرچہ گَڈ کر کے آیا ہوں، اب فیل نہیں ہونگا“ نوجوان نے اپنے دوستوں کو بڑے فخر سے ”ناسیں پُھلاتے ہوئے بتایا۔ پھر خود ہی وضاحت کردی ”سب کتاب سے دیکھ کرلکھا“۔ خیرخواہوں نے پریشانی کا اظہار کیا کہ چیکر نقل کی وجہ سے صفر نمبر دیگا۔ اس پر نوجوان تِنک کربولا ”مجھے کیا تم لوگ بیوقوف، احمق اور جھلا سمجھتے ہو، میں نے ایک سطر چھوڑ کر ایک سطر لکھی ہے“۔۔۔
ایسے ہی ایک شخص کے پاس روپے پیسے کی ریل پیل ہوئی تو خود کو عقل کل اور ہر شعبے کا ماہر سمجھنے لگا۔ اس نے کہیں خوبصورت بنگلہ دیکھا، اس کی تصویریں بنائیں، کہا نقشہ خود بناﺅں گا۔ بنگلہ تیار ہو گیا جو اپنی خوبصورتی میں لاثانی تھا۔ لوگ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے۔ اس بنگلے پر شاید خادم اعلیٰ کی نظر بھی پڑ گئی اور اسکے منصوبہ ساز کی خدمات سے استفادہ کا فیصلہ کر لیا۔ اس صاحب نے اپنے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں کو مرعوب کرنے کیلئے نئے پُرشکوہ بنگلے میں گرینڈ پارٹی کا اہتمام کیا۔ ناﺅ نوش کی محفل خوب جمی۔ ایک مہمان کو واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، واش روم نظر نہ آیا تو میزبان سے پوچھا جس نے پریشانی سے سر پکڑتے ہوئے کہا ”اوہ! باتھ روم بنانا بھول گیا۔ کسی نے کچن کا پوچھا تو بھی کہا ”اوہ!۔۔۔“
لاہور میں ایسے بہت سے شاہکار منصوبے ہیں جن کی تکمیل پر منصوبہ ساز کہتے نظر آتے ہیں ”اوہ! یہ بھول گیا،یہ رہ گیا “۔ ٹھوکر سے چوبرجی تک ملتان روڈ کی تعمیر کے دوران کئی ماہ لوگ عذاب میں رہے۔ بڑی خوبصورت اور کشادہ شاہراہ بنی۔ ادھر یہ سڑک مکمل ہوئی ادھر خادم اعلیٰ کو شہر کے اندر ٹرین چلانے کا خواب آ گیا۔وہ ایسے خوابوں کی ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی سی تیز ی سے تعبیر پانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ملتان روڈ کی تعمیر کے دوران لوگوں کو مسلسل ڈیڑھ سال عذاب کا سامنا رہا۔ کسی نے کان میں کہہ دیا کہ لاہور میں ٹرین چلا دو تو ملتان روڈ کی کھدائی شروع ہو گئی۔ اس روڈ پر سفر کرنیوالوں کو اب مزید دیکھیں کتنا عرصہ اس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اورنج ٹرین منصوبہ مکمل ہو تو کوئی اسے انڈرگراﺅنڈ کرنیکا خواب آجائے یا کوئی مشورہ دیدے۔ میٹرو اور اورنج ٹرین شہباز شریف کے دم قدم کی مرہون ہے۔ دونوں منصوبے مسلم لیگ ن کی حکومت کے ساتھ ہی دم توڑ دینگے۔ مزنگ سے لبرٹی تک سڑک سگنل فری بنائی جارہی ہے۔ اس سڑک کے ارد گرد بڑے بڑے پلازے، شاپنگ سنٹر اور کاروباری مراکز ہیں۔ نقشے اور مطلوبہ مہارت کے بغیر پل اور شاہراہیں بنانے والوں کو فلائی اوور بنانے یاد نہیں رہے۔ اب ایک کی تعمیر شروع کی گئی ہے، باقی کا جیسے جیسے خیال آئیگا سڑک کا کا ناس مارا جاتارہیگا۔
گو یہ عوامی مفاد کے منصوبے ہیں مگر مخالف سیاستدانوں کو میٹرو اور ٹرین اپنے سینے پر چلتی محسوس ہو گی جیسے پرویز الٰہی کے ملتان اور وزیرآباد میںبنائے گئے ہسپتال عملے سے محروم ہیں۔ اورنج ٹرین اور میٹرو آنیولوں کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے اس کو خودکفیل بنا دیں۔ اسے ٹھیکے پر دیا جا سکتا۔ اسکے نیچے یا ارد گرد شاپنگ مال بنا دیئے جائیں۔ رات کو یہ روڈ عام ٹریفک کیلئے ٹول پلازہ بنا کر کھول دی جائے۔گَڈ کے پیپر کر کے ڈگریاں حاصل کرنیوالے انجینئرز نے میٹرو ایلیویٹر ایسی بنا دی جیسے اس پر ٹرالر چلنے ہیں۔ لنٹرکی موٹائی ملاحظہ فرمائیں ۔دبئی اور دیگر ممالک میں ایلیویٹر لنٹرکی موٹائی لاہور پنڈی میٹرو سے تین گناکم ہے۔
جناح ہسپتال سے علامہ اقبال ٹاﺅن کریم مارکیٹ تک بڑی خوبصورت اور عالمی معیار کی سڑک بنائی گئی ہے۔منصوبہ بازوں کو آج یاد آیا ،اوہ! پنجاب یونیورسٹی والے کہاں سے اس سڑک پر آئیں گے! اب یہ لاہور میں واحد مقام ہے جہاں سے ون وے توڑ کرسڑک پر جانے کی اجازت ہے۔آجکل سڑک کے درمیان میں کھدائی ہورہی ہے۔ پتہ چلا فلائی اوور بن رہاہے، کیسے Legend انجینئر ہیں!
میٹرو کے روٹ کے ارد گرد سڑک سگنل فری ہے۔ خود میٹرو سگنل فری نہیں ہے۔ مزنگ سے لبرٹی تک کئی مقامات پر سڑک مضبوط اور پائیدار تھی،اسکو بھی 6 سات انچ کارپٹ کرنا فرض سمجھا گیا ۔ کئی جگہ پر آس پاس کی عمارتیں سڑک سے نیچی ہو گئی ہیں۔ان عمارتوں کے مالکان اگلے مون سون سے قبل کشتیاں خرید لیں! کشتیوں سے یاد آیا اگرگَڈ کے پرچے حل کرکے ڈگریاں حاصل کرنیوالے مشیروں، بیوروکریٹ اور سول انجینئرزنے صاحب کے کان میں پھونک دیا کہ ٹھوکر نیاز بیگ سے جلو موڑ تک نہر میں بوٹ سروس شروع ہو سکتی ہے تو سمجھ لیںکہ چیمہ نہر چوڑی اور گہری کرانے کےلئے دن رات ایک کر دینگے۔ چند ماہ میں کشتی چلتی نظر آئیگی خواہ یہ کاغذ ہی کی ناﺅ ہو۔ ٹھوکر نیاز بیگ پر پل کی تعمیر کے خواب کی تعبیر دو تین ماہ میں پوری کرنے کیلئے انجینئرز کو آگے لگا لیا۔ اس پل پر پہلی گاڑی چڑھی تو انجینئر حضرات اپنے ہی شاہ کار پر دل تھامے کھڑے تھے۔ پہلی گاڑی گزری تو پُل لرز کے سنبھل گیا۔ خدا خدا کر کے دوسری، تیسری اور چوتھی گاڑی بھی خیریت سے گزر گئی پھر چل سو چل۔ افراتفری میں بنائے گئے پل پر جس دن درجن بھر لوڈڈ کنٹینر ایک قطار میں اسکے اوپر آ گئے تو خداخیر کرے۔نندی پور منصوبہ پر طبع آزمائی یو ں کی گویاگائے کو کہا تین ماہ میں بچھڑے کو جنم دے ۔
وقت نیوز کے ڈرائیور خرم علی بتا رہے تھے کہ ٹھوکر سے لال پل تک کوئی پٹرول پمپ نہیں، پٹرول پمپ کے ساتھ گروسری شاپ اور پنکچر والے بھی ہوتے ہیں، موٹر سائیکل سوار عموماً ہوا نکلی بائیک کو گھسیٹتے دیکھے جاتے ہیں۔ اس نوجوان کی یہ تجویز بھی ہے کہ نہر پر نوجوان بے دھڑک ویلنگ کرتے ہوئے مرتے ہیں۔ ہر انڈر پاس کے ساتھ چھوٹی سی پولیس پوسٹ بنا دی جائے تو ویلنگ ختم اور یہ سڑک مسافروں کےلئے محفوظ ہو سکتی ہے۔
مال روڈ کی کئی مقامات سے کھدائی کر کے تعمیر نو کی گئی ہے۔ فٹ پاتھ پر ٹف ٹائلیں اور ساتھ سیمنٹ کے بلاک نئے لگا دیئے گئے ہیں مگر سڑک پہلے جیسی ہے،اس میں سونے جیسی چمک نہیں آ سکی۔ مال روڈ پر ایسی مہم جوئی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شاید کسی کی دیہاڑی لگوانا مقصود تھا۔ ایک دوست نے کہا یہ مال روڈ ہے اس لئے اس پر مال لگ رہا ہے اور مالدار ٹھکیدار بھی مالا مال ہو رہے ہیں۔ اسی مال روڈ سے فورٹریس سٹیڈیم کی طرف جائیں تو نہر پر تین سڑکیں ہیں۔ درمیان والی فورٹریس سٹیڈیم کی طرف جانیوالوں کیلئے چالان گاہ ہے۔ جہاں ٹریفک والے شست لگا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس طرف پہلی بارجانیوالانے چالان سے نہیں بچ سکتا۔ اس عذاب کا کسی کے کیا کوئی جواب ہے۔
چھوٹے اور بڑے میاں صاحب انرجی،میٹرو اور موٹر وے منصوبوں پر کہتے ہیں فلاں منصوبے میں چار ارب فلاں میں دس ارب کی بچت ہوئی۔ کیسے بچت ہوئی۔ ایک منصوبے کا تخمینہ 60ارب لگایا۔منصوبہ پر 50 ارب خرچ آنا تھا، صاحبان! دس ارب کو بچت کانام دیتے ہیں۔سردار جی نے بیوی کو بتایا کہ آج بیس روپے کی بچت کی ہے،وہ کیسے ؟ بیوی کے کہنے پر بتایا ،ویگن میں سوار نہ ہوسکا تو اسکے پیچھے دوڑتاہوا گھر پہنچ گیا۔ بیوی بھی اس جیسی فلسفی تھی کہا،رکشے کے پیچھے دوڑتا آتا تو ڈیڑھ سو کی بچت ہوجاتی۔جناب! تخمینہ 80ارب لگوا کرد س کے بجائے 30ارب کی بچت کی جاسکتی ہے۔
حاصل کالم یہ ہے کہ میرٹ اور مہارت پر کمپرومائزاور فطرت سے ماورا کچھ کرنے کی کوشش کرینگے تو ”نندی پور“ گلے پڑیں گے، ٹھوکر پل لرزیں گے۔بیوروکریٹس کے کرنے کے کام ان سے کرائیں،سول انجینئرز کوانکا کام کرنے دیں۔یہ اپنا کام کرینگے تو منصوبے فول پروف ہونگے، انکی تکمیل پر یہ نہیں کہنا پڑےگا ۔ ”اوہ!۔۔۔“ اور ہاں یہ ضرور اہتمام کریں کہ جس کوجو بھی ذمہ داری دے رہے ہیں اس نے پیپر گَڈ کے تو نہیں کئے۔