ہمیں یہ جان کر حیرت آمیز خوشی ہوئی کہ سیاحتی اداروں کو قدیم ہڑپہ تہذیب و آثار کو ازسر نو کھوجنے (یا کھودنے) کا خیال آ گیا ہے۔ اس محکمے نے ”ہڑپہ کی دوبارہ دریافت“ نامی ایک نمائش کا لاہور جیسے تاریخی شہر میں اہتمام کیا ہے۔ اس ہڑپہ نو دریافتی نمائش میں پانچ عناصر کو بنیاد بنایا گیا۔ جن میں پانی، مٹی، ہوا، آگ اور ماحولیاتی اثرات شامل ہیں۔ یہ جان کر مزید تسلی ہوئی کہ اس نو دریافتی کاروائی میں امریکی تعاون بھی شامل ہے اور امریکہ کے کونسل جنرل لاہور مسٹر ہارکین رائیڈر صاحب بھی اس تحقیقی ”رائیڈ“ میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ صوبائی وزیر ٹورازم رانا مشہود کے علاوہ بہت سے محقق، ماہرین تعمیرات و آثار قدیمہ بھی اس کار خیر میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہڑپہ ثقافت پر تحقیقی اظہار خیال کا اہتمام بھی کیا گیا۔ متعلقہ مباحث میں ماہرین آثار قدیم، ہڑپہ تہذیب کے محقق، عجائب گھر کے نگہبان اور ثقافتی پالیسی ساز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ان مجالس میں عوام کو بھی شریک کیا جا رہا ہے تاکہ ہڑپہ کے تاریخی مقام اور قدیم تہذیبی اقدار سے آگاہی کو عام کیا جا سکے۔
ہڑپہ سے ہماری آشنائی کا سلسلہ بہت پرانا ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں.... تو درست ہوگا۔ ہڑپہ سے کچھ آگے چیچہ وطنی میں ہماری آبائی اراضی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے چیچہ وطنی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ساہیوال سے سترہ میل آگے ملتان روڈ پر ہڑپہ کا بورڈ لگا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں دائیں طرف پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر ہڑپہ کے آثار قدیمہ دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم ہر سال عیدالالضحیٰ اپنے بال بچوں سمیت چیچہ وطنی میں مناتے ہیں اور اس دوران ہڑپہ کے آثار قدیمہ میں ایک دن ضرور گزارتے ہیں، گھر سے تکہ کلیجی وغیرہ بنا کر ساتھ لے جاتے ہیں اور ہڑپہ عجائب گھر کا دیدار کرتے ہیں اور پھر میلوں پر پھیلے ہوئے آثار قدیمہ کا نظارہ کرتے ہیں۔ عجائب گھر اور آثار قدیمہ کے درمیانی راستے پر قائم چائے اور مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر آثار قدیمہ کے دیکھتے ہوئے آخری حد نو گزے پیر کے مزار تک جاتے ہیں۔ فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ واپسی پر راستوں کے ایک طرف پھیلے ہوئے قدیم بھریری مٹی والے ٹیلوں سے جھانکنے والی مٹی کے ٹوٹے برتنوں اور کبھی کبھی خستہ ہڈیوں کے ٹکڑے بھی اکھٹے کر لیتے ہیں اور سوچتے ہیں۔
پھرتے ہوئے اٹھاتے ہیں ہم جن کی ہڈیاں
یہ خوش خرام لوگ بھی ہوں گے کبھی یہاں
موئین جوڈارو (سندھ) کے بعد ہڑپہ کی تہذیب قدیم ترین قرار دی جاتی ہے۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ ہڑپہ اور موئین جوڈارو کے آثار قدیمہ میں بہت حد تک یکسانیت اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک روائت یہ بتاتی ہے کہ جب سکندر اعظم نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا تو اس مقام پر ملہی اور کاٹھیا قبائل نے مل کر یونانی فوج کا مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔ رگ وید کے قدیم منتروں میں ہڑپہ کا نام ہی ہری روپا لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اندازہ ہے کہ کثرت استعمال نے ہری روپا کو ہڑپہ بنا دیا ہوگا۔ یہ علم ہونے سے قبل ہم تکہ بازی کی بنیاد پر سمجھ رہے تھے کہ یہاں کے لوگ جو ہاتھ آئے ہڑپ کرجاتے ہونگے اور اس ہڑپیلے پن کی وجہ سے اس جگہ کا نام ہڑپہ پڑ گیا ہوگا۔ اس تاثر کے تحت ہڑپہ میں گھومتے ہوئے یہ شعر بھی ہم پر نازل ہوا تھا۔
اس نگر کے لوگ شائد سب ہڑپے تھے بہت
اس لئے مشہور یہ نگری ہڑپہ ہوگئی
بعدازاں جب حقائق کاعلم ہوا تو سخت شرمندگی ہوئی۔ تحقیق پر انکشاف ہوا کہ ہڑپہ کے قدیم آثار 1828ءمیں مسٹر حسین نے دریافت کئے۔ پھر 1853ءمیں جنرل کننگھم نے دوسال تک مزید کھدائی کی توپتہ چلا کہ ان آثار کی عمر حضرت عیسیٰ کے دور سے بھی تین ہزار سال زیادہ قدیم ہے۔ اس وقت یہ شہر دریائے راوی کی دو شاخوں کے درمیان واقع تھا۔ اب یہ دریا ان کھنڈرات سے چھ میل کے فاصلے پہ بہہ رہا ہے۔ پھر 1920ءمیں دو سال مزید کھدائی کی گئی۔ ان کھدائیوں میں زمانہ قدیم کے بازو بند، ہار، گہنے، سونے کی تختیاں، کھلونے اور ایسے باٹ ملے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ اس زمانے میں بھی ناپ تول کا نظام بھی رائج تھا۔ مٹی کے نازک اور قابل استعمال برتن، انسانی بت اور مجسمے بھی کھدا ئی کے دوران دستیاب ہوئے۔ یہ تمام نوادرات اور دو تین قدیم انسانی ڈھانچے بھی ہڑپہ عجائب گھر کی زینت ہیں۔ قدیم ہڑپہ تہذیب کے دو اور حیرت انگیز پہلو بھی سامنے آئے۔ ایک تو یہ کہ اس شہر میں گندے پانی کی نکاسی کا نظام ہر گھر سے شہر کے باہر تک پھیلا ہوا تھا۔ دوسرے یہ کہ ہڑپائی تاجروں کی تجارت عراق، شام، ایران، تبت اور برما تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ ثبوت دستیاب نہیں کہ یہ لوگ کسی خدا یا دیوتا کو مانتے تھے یا نہیں۔ اب ہڑپہ کی دوبارہ دریافت کا دروازہ کھلا ہے تو دیکھئے۔
نیا کیا دکھائے ہڑپہ کی مٹی
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38