پنجابی کا محاورہ سنا تھا ”سو سنار دی اِک لوہار دی“ کچھ لوگوں کے نزدیک اس کا عملی مظاہرہ 16 مئی کو اس وقت دیکھنے کو ملا جب خورشید شاہ کی سربراہی میں متحدہ اپوزیشن قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خطاب کے بعد اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان کے باہر پریس کانفرنس کر رہی تھی جہاں شاہ محمود اور شیخ رشید پہلی صف میں جبکہ عمران خان حسرت و یاس کی تصویر بنے دوسری صف میں کھڑے دکھائی دے رہے تھے لیکن میرے نزدیک اس واقعہ کا باریک بینی سے تجزیہ کریں تو اس سے آگے کئی اور حقیقتیں آشکار ہوتی نظر آتی ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی دو رائے تو ہو ہی نہیں سکتی کہ پیپلز پارٹی نے اندرون خانہ نون لیگ سے ملکر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اس تحریک کو اس خوبصورت انداز میں ہائی جیک کیا ہے کہ اوپر بیان کردہ محاورے کا ایک ایک لفظ نون لیگ کی پیشہ وارانہ مہارت کا عملی نمونہ لگتا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں رہتا کہ پاکستان کی سیاست کتنی بھیانک اور بے رحم ہے جہاں ہر کوئی ایک تیر سے دو نہیں کئی کئی شکار کرتا نظر اتا ہے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ دوسروں کو استعمال کرنے کا فن جتنا عمران خان کو اتا ہے اس میدان میں شاید ہی کوئی اور اسکا مقابلہ کر سکے اس حوالے سے بےشک لاتعداد واقعات اسکی ذاتی اور عملی زندگی کا اِحاطہ کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ جس زمین پر وہ رہتا ہے وہاں اس سے بھی بڑے کھلاڑی ہیں جو زندہ اور مردہ دونوں قسم کی لاشوں پر سیاست کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت اپنی ایک بوٹی کی خاطر دوسرے کی پوری کی پوری گائے ذبح کروا دیتی ہے اس سلسلے میں عمران صاحب اگر ماضی قریب پر ایک نظر دوڑائیں تو ا±نہیں یاد ہوگا کہ اپوزیشن کا ایک نمائندہ جو کہ کچھ طاقتور حلقوں کا پیادہ گنا جاتا ہے ایک دن انکے پاس آیا تھا اور اس نے عمران کو باور کرایا تھا کہ اگر تحریک انصاف اسکی حمایت کر دے تو پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کی جگہ وہ قائد حزب اختلاف بن کر نواز حکومت کو ناکوں چنے چبوا سکتا ہے لیکن اپنی پارٹی کے چند لوگوں کی وجہ سے عمران کو اس حمایت سے معذوری کا اظہار کرنا پڑا تھا سو آج اگر اسی خورشید شاہ کی قیادت میں وہ عمران خان کو دوسری صف میں دھکیل کر اپنا حساب برابر کر گیا ہے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ جب تک کوئی پارٹی لیڈر سیاست میں اپنی لائن نہیں لے گا اور جب تک وہ دوسروں کی لائن پر کھیلے گا اسکے ساتھ ایسے حادثات ہوتے رہیں گے کہ کبھی طاہرالقادری بیچ چوراہے اسکو چھوڑ جائے گا اور کبھی متحدہ اپوزیشن کی صفوں میں ثانوی حیثیت اسکا مقدر ٹھہرے گی۔ دراصل عمران خان کا یہ المیہ رہا ہے کہ شروع دن سے عوامی مقبولیت کے باوجود اسکا رجحان ا±ن خفیہ ہاتھوں کی طرف رہا ہے جن کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ پاکستان میں حصول اقتدار کے کھیل میں ان ہاتھوں کا کردار کلیدی نوعیت کا ہوتا ہے یقین جانیئے اس رائے میں ذرا بھر بھی حقیقت ہوتی تو پچھلے آٹھ سالوں سے پاکستان میں کبھی بھی زرداری اور نواز کی حکومت قائم نہ ہوتی۔ اقتدار تک رسائی صرف انہی قوتوں کی مرہونِ منت اور انکے وعدوں سے مشروط ہوتی تو عمران خان کے ساتھ کھڑا شاہ محمود کب سے ایوان وزیراعظم میں مقیم ہوتا۔ بطور کھلاڑی لائن اور لینتھ کی اہمیت جتنا عمران خان جانتا ہے شاید ہی کوئی اور اس کی اہمیت سے واقف ہو لیکن جب وہ دوسروں کی لائن پر کھیلتا نظر آتا ہے تو اسکے کھلاڑی ہونے پر شبہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اس تناظر میں اگر کسی کی مہارت کی داد دینا پڑے گی تو وہ ہے آصف علی زرداری جو بڑوں بڑوں کو اپنی لائن اور لینتھ پر کھیلا رہا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک طرف یہی عمران خان جو زرداری کو سب سے بڑی بیماری قرار دے رہا تھا آج اسی کی جماعت پیپلز پارٹی کی سربراہی میں سرنگوں کھڑا دکھائی دے رہا ہے دوسری طرف وہ نون لیگ جو اسے سڑکوں پر گھسیٹنے کا عزم دکھا رہی تھی آج اپنا اقتدار بچانے کیلئے بار بار اسکے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زرداری نواز حکومت کو چلتا کرنے میں کسی عمل کا حصہ بنے گا شاید وہ احمقوں کی جنت کے مکین ہیں۔ رہی بات نواز شریف کے خلاف کسی ماورائے قانون قدم کی تو موجودہ حالات میں خاص کر آج جب ملا منصور کی پاکستان کے علاقے میں ہلاکت ہوئی ہے جو لوگ نواز شریف کے خلاف کسی ماورائے قانون کسی قدم کی امید لگائے بیٹھے ہیں وہ بھی احمقوں کی جنت کے باسی دکھائی دیتے ہیں ہاں جو لوگ اِن ہاوس تبدیلی کی بات کرتے ہیں اس میں شاید کوئی وزن دکھائی دے لیکن ایسی کسی امکانی صورت میں دو نام سامنے آتے ہیں جن میں ایک شہباز شریف اور دوسرا چوہدری نثار کا ہے۔ ان دونوں کی مشرف دور میں نواز شریف سے وفاداری کی جو مثالیں موجود ہیں انکی روشنی میں ایسی کسی سوچ کا گمان وہم سے زیادہ کچھ نہیں اور اگر کوئی ایسی صورت سامنے آ بھی جاتی ہے تو وہ لوگ جو شہباز اور زرداری کا ایک دوسرے کے متعلق بغض جانتے ہیں اور جنھوں نے چوہدری نثار کے متعلق اعتزاز اور خورشید شاہ کی تقاریر سنی ہیں وہ اندازہ لگا سکتے ہیںکہ ان دونوں کو روکنے کیلئے آصف زرداری اینڈ کمپنی کس حد تک جا سکتے ہیں۔ رہی بات کہ موجودہ تناظر میں آئندہ کی کیا صورتحال نظر آرہی ہے تو قارئین آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ بیشک آنے والے دنوں میں گھمسان کا رن پڑتا نظر ا ٓرہا ہے لیکن یاد رہے نواز شریف کے اقتدار میں سمدھی ایکسپریس کو بڑی اہمیت حاصل ہے واقفانِ حال بتا رہے ہیں کہ آجکل اسی سمدھی ایکسپریس کی ایک بوگی جسکا آگے رشتہ کراچی کے جس عسکری حلقے سے ہے اسے آنے والے دنوں انتہائی اہم ذمہ داری سونپنے کی منصوبہ بندی پر کام ہو رہا ہے اگر یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو پھر نواز شریف کیلئے اگلے تین نہیں چار سال کیلئے ستے خیراں تفصیلاً اس موضوع پر آئندہ کسی اور وقت بات ہوگی اور بلا شک اپ کہیں گے سو سنار دی تے اِک لوہار دی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024