گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف سے شادی ہوئے 14سال بیت چکے ہیں، شریف خاندان کے کسی فرد سے میری ملاقات نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ معلوم نہیں۔ کتاب ”مائی فیوڈل لارڈ“ (مینڈا سائیں) لکھنے پر 1991ءمیں میرے والدین نے مجھ سے لا تعلقی ظاہر کر دی تھی۔ مجھے اپنے خاندان سے وراثت میں کچھ نہیں ملا۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ میں اپنی والدہ کی دولت کا حصہ نہیں ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے پاس کتنی دولت ہے اور یہ دولت انہوں نے کہاں چھپا کر رکھی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ قومی دولت کو وطن واپس لانا چاہیے۔ تہمینہ درانی نے اچھی بات یہ کی کہ شریف خاندان اگر اپنا نام کلیئر کرانا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ سادہ زندگی گزاریں اوراپنی زندگی کو سہل بنائیں۔ تہمینہ درانی نے سادہ زندگی گزارنے اور زندگی کو سہل بنانے کا بہت عمدہ مشورہ دیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ شریف خاندان اس مشورے پر عمل کر پائیں گے۔ ایسا صحیح اسلامی نظام ہی میں ہو سکتا ہے۔ جب یہ نظام قائم نہ ہو تو اس وقت تک روپیہ اپنے طورپر دوسرے ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کرنا چاہیے اپنی ضروریات سے جس قدر زیادہ ہو، سب کا سب دوسروں کی پرورش کے لیے دے دینا ہو گا۔ بابا فریدؒ کا شلوک ہے:
رُکھی سُکی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
ویکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی
مشہور صوفی بزرگ حضرت شفیق بلخیؒ نے صبر کے مفہوم میں فرمایا ”جب نہیں ملتا تو ہم صبر کرتے ہیں۔کچھ مل جائے تو ایثار کرتے ہیں اور دوسروں میں بانٹ دیتے ہیں“ سادگی کے ساتھ ساتھ عجز و انکساری بھی ضروری ہے۔ عاجزی اختیار کرو ورنہ عاجز آ جاو¿ گے۔ کسی کی دل آزاری نہ کرو، فتح مت کرو، دل جیتو۔ ایک بزرگ نے کہا۔ ہم سب گارڈین ہیں، کیئر ٹیکر ہیں۔ ہمارے دفتروں، ہمارے گھروں میں ایسے بے شمار لوگ ہوتے ہیں جو دو تین ہزار روپے کے لیے ہماری خدمت کرتے ہیں۔ان کا رزق ہمارے رزق سے نتھی ہوتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کے صابر بندے ہوتے ہیں۔ اللہ ہمیں رزق عنایت کرتا ہے تا کہ ہم ان لوگوں کا حصہ ان تک پہنچا سکیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا، ہمیں کس مالی، کس چپڑاسی، کس خانسامے، کس چوکیدار اور کس ڈرائیور کے صدقے یہ ساری نعمتیں یا یہ ساری آسائشیں مل رہی ہیں۔ وہ کون ہیں جس کا شکر ہمارے رزق کو وسعت دے رہا ہے مگر ہمارا تکبر، ہماری نخوت، ہمارا عزور ہمیں ڈنگ مارتا ہے اور کسی کمزور لمحے ہم اس ذریعے کو اپنی زندگی سے خارج کر دیتے ہیں اور پھر ان ساری آسائشوں، ساری نعمتوں کا سورج بھی ہمارے صحنوں سے رخصت ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ لیکن مسلسل چلنا کامیابی کی ضما نت ہے۔ تکبر کرنے والا سر کے بل گرتا ہے اور انکساری میں ڈوب کر منازل سفر کرنے والا کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ لکھا ہوا لفظ، بہتا ہوا خون، مظلوم کی آہ، بے بس کی فریاد اوربے لوث ایثار رائیگاں نہیں جاتے۔ جیون خان سندھ میں کمشنز تھے تو ایک روز وہ ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ شکارپور کے دورے پر نکلے۔ کالج کے بعد ایک ہسپتال وزٹ کرایا گیا۔ بتایا گیا کہ یہ ہسپتال ایک مخیر سیٹھ کی دین ہے۔ برآمدے میں سے گزر کر عمارت کے صدر دروازے میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ سنگ مرمر سے بنا برآمدے کا فرش گویا چمک رہا تھا۔ صفائی کا یہ عالم تھا تو جوتوں سمیت اس پر قدم رکھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی، اس تذبذ ب میں تھا کہ دروازے کے عین متصل فرش میں کندہ کی ہوئی قد آدم تصویر (پورٹریٹ) نظر آئی۔ میں ٹھٹکا۔ میزبان نے وضاحت کی ”یہ اس ہسپتال کے بانی کی پورٹریٹ ہے۔ انہوں نے خود ہی یہاں کندہ کرائی تھی۔ ساتھ ہی وصیت کی تھی کہ جب تک یہ شفاخانہ چلتا رہے، یہ یہیں رہے تا کہ ہر آنے جانے والے کے پاو¿ں اس پر پڑتے رہیں“ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے جیسے اپنے آپ سے پوچھا۔ کہتے ہیں کہ جب ہسپتال بن چکا اور مریض دھڑا دھڑ آنے لگے تو انہیں خیال آیا کہ وہ ”مہان پرش“ (عظیم آدمی) ہیں۔ وہ اسے خناس کا کرشمہ سمجھے اور ”خود پرستی“ کی جڑ کاٹنے کے لیے یہ نسخہ تجویز کیا۔ انکساری اور عجز کا تقاضا تھا کہ ان کا چہرہ تک خاکساران جہاں کے قدموں تلے روندا جائے۔ اس دیالو سیٹھ کو گزرے مدتیں ہو گئیں مگر ہسپتال نہ صرف چل رہا تھا۔ بلکہ پہلے سے زیادہ دکھی انسانیت کی خدمت کر رہا تھا۔ اس کی جگہ اگر وہ محل ماڑیاں اور قارون کے خزانے چھوڑ گیا ہوتا تو کسی کو معلوم تک نہ ہوتا کہ اس نام کا کوئی آدم زاد کبھی دھرتی کا بوجھ تھا یا نہیں۔ ہسپتال سے مجھے یاد آیا کہ ثریا عظیم سے میری چند ملاقاتیں رہیں جنہوں نے چوبرجی چوک کے قریب ہسپتال بنا کر جماعت اسلامی کے حوالے کر دیا اب جماعت والے اسے چلا رہے ہیں۔ ثریا عظیم اولاد کی نعمت سے محروم تھیں۔ یہ ہسپتال آٹھ کنال سے زائد رقبے پر ہے۔ یہ اہم اور کمرشل جگہ ہے ۔ یہاں زبردست پلازا بھی بن سکتا تھا مگر بیگم ثریا عظیم نے ہسپتال بنا کر اللہ کے نام پر وقف کر دیا۔ بیگم ثریا عظیم اور ان کے شوہر میجر (ریٹائرڈ) خورشید زماں جب تک زندہ رہے، ہسپتال کی نچلی منزل پر رہائش پذیر رہے۔
ملک کے عام شہری کا نقشہ رانا احتشام ربانی نے اس طرح کھینچا ہے۔ خیالوں میں خواب بنتا ہوں۔ راکھ سے موتی چنتا ہوں۔ آہوں سے دئیے جلاتا ہوں۔ دکھوں کے گیت گاتا ہوں۔ بے کسی کی ہوا جھیلتا ہوں۔ جبر، ظلم، ناانصافی کو برداشت کرتا ہوں۔ غربت کی روٹی کھاتا ہوں، صبر سے پیاس بجھاتا ہوں،۔ وی آئی پی سیکیورٹی کی وجہ سے مر جانے والے بچے کی لاش دفناتا ہوں۔ عدل و انصاف کے حصول کی خاطر دردر کے دھکے کھاتا ہوں۔ سوچتا ہوں، میں بھی ملک کا ایک شہری ہوں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38