سلیمان اول عثمانی ترکوں کا سب سے ذی حشم شہنشاہ تھا۔سلطان کے نام کا سکہ تین براعظموں میں چلتا اور عالم مغرب میں اُسے سلیمان عالیشان کے نام سے جانا جاتا تھا، عالم مغرب کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ سلطان سلیمان کی جس شان و شوکت اور عظمت سے وہ ہیبت زدہ تھے، وہ سارا رعب اور سارا دبدبہ دراصل اس کے بنائے ہوئے قوانین، قوائد ، اصول اور ضوابط پر سختی سے عملدرامدکے سبب تھا، عالم مشرق میں سلطان سلیمان کو بڑے پیمانے پر اصلاحات اور قانون سازی کی وجہ سے ’’القانونی‘‘کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ سلطان نے فوجداری اور اراضی کے مقدمات اور محصولات کی شرح اور وصولیوں کیلئے الگ سے قوانین تیار کرائے تھے۔ اس مقصد کیلئے سلیمان نے اپنے سے پہلے نو عثمانی سلاطین کے فیصلے اکٹھے کیے، سلیمان نے ان فیصلوں میں پائے جانیوالے تضادات، ابہامات اور سقم دور کرانے کے بعدافسر شاہی،امور سلطنت، زراعت، مالیات، تعلیم اور سماج سمیت تمام شعبوں میں متعدد اصلاحات اور نئے قوانین متعارف کرائے،اس ساری مشق کا مقصد یہ تھا کہ آئندہ کیلئے کوئی حجت باقی نہ رہے اور کوئی قانون اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم نہ رہے۔یہ قوانین تیار کرنے میں مفتی اعظم ابو سعود نے سلطان سلیمان کی بہت مدد کی، ان قوانین کو ’’قانونِ عثمانی‘‘ کا نام دیا گیا اور یہ قوانین آنیوالے تین سو سال تک عثمانی سلطنت میں رائج رہے۔ سلیمان کے بعد تین صدیوں میںاِن قوانین میں کوئی تبدیلی کی جاسکی نہ کوئی اصلاحات متعارف کرائی جاسکیں۔تین صدیوں تک بنیادی قوانین میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کاعثمانی سلطنت کو بعد میں بہت خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اٹھارہویں میںاِن قوانین میں اصلاحات کی کوشش کی گئی، لیکن یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ انیسویں صدی میںجب تنظیمات اور اصلاحات کے نام سے ان قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں تو اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سے پانی بہہ چکا تھا، لیکن ان اصلاحات کے بعد بھی مراعات یافتہ طبقے اور عام رعایا کیلئے الگ الگ قوانین کا امتیاز اور ’’ینی چری‘‘ کو حاصل استثنیٰ ختم نہ کیا جاسکا تھا۔ اس معاملے میں ترکوں کی آنکھیں دیر سے کھلنے کابہت بھیانک نتیجہ نکلا، تین براعظموں پر پھیلی سب سے ذی وقار سلطنت ترکوں کے ہاتھوں سے ریت کی طرح نکلتی چلی گئی اور جب ترک آنکھیں مل کر بیدار ہوئے تو اہل یورپ ترقی کی دوڑ میں اُن سے بہت آگے نکل چکا تھا۔
ترکوں نے تو پھر ’’مرد بیمار‘‘ کہلانے کے بعد جلد ہی ماضی سے سبق سیکھ لیا تھا لیکن ماضی کے یہ اسباق پڑھ کر اور تجربات سامنے رکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہم نے ابھی تک کچھ نہیں سیکھا۔ مثال کے طور پر پاکستان میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اس وقت سیاسی صورتحال اور ماحول کافی تپا ہوا ہے۔ سیاسی ماحول بھی انتخابی اصلاحات کی وجہ سے ہی مکدر بنا ہوا ہے۔ گزشتہ برس اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنے میں پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری کا تو بنیادی طور پر مطالبہ ہی یہی تھا کہ انتخابی اصلاحات متعارف کرائی جائیں، سیاسی ماحول کو گرم کرنے والے دوسرے شخص عمران خان ہیں، مبینہ دھاندلی کے الزامات کے پیچھے تحریک انصاف کا بھی بنیادی طور پر مطالبہ انتخابی اصلاحات ہی ہے۔ انتخابی اصلاحات کا مطالبہ بلا شبہ اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کا تھا، لیکن جب حکومت نے ان اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا تو کئی ہفتے گزرنے کے باوجود اپوزیشن کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا اور ابھی تک ارکان کے مکمل نام سامنے نہ آنے کی وجہ سے یہ کمیٹی مکمل ہوکر فعال نہیں ہوسکی۔
یہاں کچھ نکات اور پہلو قابل توجہ ہیں کہ جن کے بغیر انتخابی اصلاحات بے معنی ہونگی۔مثال کے طور پر حکومت اور اپوزیشن نے باہمی اتفاق رائے اور مشاورت سے نگران حکومت تشکیل دینی ہوتی ہے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی باہمی مشاورت سے بننے والی نگران حکومت پر بھی (دیگر چھوٹی) سیاسی جماعتوںکو اعتماد نہیں ہوتا، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دھاندلی اور پینتیس پنکچروں والے الزامات اسی تناظر میں دیکھے جانے چاہئیں اس لیے ضروری ہے کہ نگران حکومتوں کی تشکیل کیلئے اس اتفاق رائے کو وسیع کیا جائے تاکہ چھوٹی بڑی اور حکومت کے اندر یا باہر تمام جماعتیں انتخابات کرانیوالے نگرانوں پر یکساں اعتماد کرسکیں۔ نگران حکومت کا قیام بھی سہل ہونا چاہیے، بلکہ میکانزم ایسا ہونا چاہیے کہ نگران حکومتیں صرف انتخابات کی نگرانی کے علاوہ اور کوئی کردار ادا نہ کرسکیں، ورنہ آئندہ انتخابات میں کوئی ایسا شخص ڈھونڈنا تقریبا ناممکن ہوجائیگا، جسے نگران حکومت سونپی جاسکے۔انتخابات کی تاریخ مقرر ہوتے ہی صدر اور گورنر کے کسی بھی ایسے کردار پر مکمل پابندی ہونی چاہیے، جو بلواسطہ یابلا واسطہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوسکتا ہو، اس سلسلے میںالیکشن کمیشن کو مکمل طور پر با اختیار بنایا جانا چاہیے۔ دفعہ 62 اور 63 کا اطلاق اور انتخابات میں حصہ لینے والوں کی سکروٹنی ہمیشہ سے بڑا چیلنج رہی ہے، اس چیلنج سے جدید تقاضوں کے مطابق نمٹنا بھی اصلاحاتی کمیٹی کے اولین فرائض میں شامل ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ انتخابی عملے کے حوالے سے مکمل بااختیار ہو اور کسی بھی قسم کی شکایت ثابت ہونے پر انتخابات پر اثرانداز ہونے والے عملے کو سخت سے سخت سزا دے سکتا ہو۔ یہ سزا سال چھ مہینے کی بجائے انتخابی عملے کی ملازمت سے برطرفی کی صورت میں ہونی چاہیے، تاکہ انتخابی عملہ کسی لالچ میں آکر انتخابات پر اثر انداز ہونے کی جرات نہ کرے۔ انتخابی عملے کو مکمل طور پر غیر جانبدار بنانے کیلئے بھی اقدامات کرنا ہونگے۔ مقناطیسی سیاہی کے حوالے سے بھی اس مرتبہ شکایات عام رہیں،بلکہ جب انتخابات کا اعلان ہوا تو مقناطیسی سیاہی بمشکل دستیاب ہوسکی تھی، اس طرح کی ضروریات تو انتخابات سے بہت پہلے پوری کرلینی چاہئیں۔ پاکستان میں انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بھی جلد استعمال میں آجانی چاہئیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پولنگ اسٹاف اور ریٹرننگ افسران اکثرانتخابی قوانین اور پولنگ قوائد سے نابلد ہوتے ہیں، اس لیے انکی تربیت اور استعداد کارکو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے، انتخابی عزرداریوں سے نمٹنے کیلئے الیکشن ٹربیونلز کے کردار کو بہتراور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ تجویز بھی موثر ہوسکتی ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کا فیصلہ حتمی ہو اور اسے کہیں چیلنج نہ کیا جاسکے۔ قارئین محترم! جب پارلیمانی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل پاجائے تو اُسے اپنے کام کو ایک محدود ٹائم فریم میں مکمل کرنا ہوگا۔ خدانخواستہ اگر یہ کمیٹی ’’تین سال تک‘‘ جتی رہی توپاکستان کو وہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، جو عثمانی ترکوں کو تین سو سال میں پہنچا ۔اصلاحاتی کمیٹی نے پوری دیانتداری اور برق رفتاری سے کام نہ کیا تو اسے کمیٹی کا دوگلا پن سمجھا جائیگا اور اگر اپوزیشن نے کمیٹی میں آنے کی بجائے سڑکوں پر احتجاج جاری رکھا تو یہ اس کا دوغلا پن ہوگا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024