حمید نظامی مرحوم کےساتھ میری پہلی ملاقات 1941ءکے آغاز میں ہوئی جب میں ایف سی کالج‘ لاہور میں زیر تعلیم تھا اور وہ میرے سینئر تھے۔ حمید نظامی مرحوم کی رہنمائی میں راقم نے سید ا حمد سعید کرمانی اور شیخ حامد محمود اور دیگر طلباءکےساتھ مل کر ایف سی کالج میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور وہاں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو پروان چڑھایا۔ حمید نظامی ان دنوں بیڈن روڈ لاہور پر رہائش پذیر تھے اور وہاں ہمارا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ان دنوں وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری تھے جبکہ میاں بشیر احمد صدر تھے۔ بعدازاں حمید نظامی مرحوم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر منتخب ہو گئے۔اس زمانے میں فیڈریشن کی سرگرمیوں کے حوالے سے جو بھی منصوبہ بندی ہوتی تھی‘ ہم سب اس میں فعال کردار ادا کرتے تھے۔ ایف سی کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد میں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ وہاں میرا ایک کلاس فیلو تاج محمد ملک جس کا تعلق راولپنڈی سے تھا‘ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا انتہائی سرگرم کارکن تھا۔ ہم دونوں نے مل کر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی داغ بیل ڈالی اور میں بطور جنرل سیکرٹری اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہا۔ اس تمام عرصے میں ہمیں حمید نظامی مرحوم کی رہنمائی قدم قدم پر حاصل رہی اور میں نے محسوس کیا کہ اس انتہائی زیرک‘ دانشمند اور مخلص نوجوان کا زندگی میں بس ایک ہی مشن ہے یعنی قیام پاکستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھنا۔ درحقیقت وہ ہمارے لئے روشنی کا ایک مینار تھے۔ان دنوں نوائے وقت ہفتہ وار اخبار تھا اور ہم طالب علم اسے فروخت کیا کرتے تھے۔ بعدازاں بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح حکم پر 1944ءمیں نوائے وقت کو روزنامہ بنا دیا گیا۔ اس زمانے میں بڑے جید مدیران کی زیر ادارت متعدد اردو اخبارات شائع ہوا کرتے تھے جن میں روزنامہ احسان‘ روزنامہ شہباز اور روزنامہ زمیندار شامل تھے تاہم روزنامہ نوائے وقت کے اداریے ان سب سے نہایت منفرد ہوتے تھے اور اثر پذیری کے لحاظ سے انہیں دیگر اخبارات پر نمایاں فوقیت حاصل تھی۔برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم الشان جدوجہد آزادی میں روزنامہ نوائے وقت کا کردار تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے۔ اس بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں پاکستان کی بَری فوج میں شامل ہو گیا لیکن حمید نظام ی مرحوم اور روزنامہ نوائے وقت سے میرا رشتہ بدستور قائم رہا۔میں صدق دل سے یہ سمجھتا ہوں کہ حمید نظامی مرحوم قائداعظم کے حقیقی وارث اور اس زمانے کے تمام سیاسی رہنماوں کی نسبت بہت بڑے انسان اور مدبر تھے۔ میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا اور انکی ذات میں کبھی کوئی ایسی خامی نہیں دیکھی جس پر کوئی انگلی اٹھا سکے۔ وہ ایک صحیح العقیدہ مسلمان اور صاحب کردار انسان تھے۔ جنہوں نے اپنے اصولوں پر کبھی کسی کےساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کیا چاہے انکے مدمقابل دنیاوی لحاظ سے کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے مسلم لیگ کے ادوار حکومت میں بھی حکمران طبقہ کو ہمیشہ صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان ادوار میں بھی روزنامہ نوائے وقت کئی مرتبہ بند کر دیا گیا لیکن حمید نظامی مرحوم نے کبھی کسی کے آگے جھکنا گوارا نہ کیا۔ وہ ایوبی آمریت کےخلاف بھی سینہ سپر رہے اور اس فوجی آمر کے مقابلے میں کوئی کمزوری نہ دکھائی۔ اسی گھٹن کی وجہ سے انہیں عارضہ قلب لاحق ہو گیا اور بالآخر وہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ ہم پاکستانیوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ایک عظیم بھائی کی وراثت جب اسکے چھوٹے بھائی مجید نظامی کے پاسی آئی تو انہوں نے بھی اس کا پورا پورا حق ادا کیا اور آج تک کرتے چلے آرہے ہیں۔ جناب مجید نظامی نے اپنے بھائی کے مشن کو پورے جوش و جذبے سے آگے بڑھایا اور انہیں حکمرانوں سے معرکہ آرائی کے کہیں زیادہ مواقع ملے۔ ایک مرحلے پر جب بیگم حمید نظامی نے روزنامہ نوائے وقت کو سنبھال لیا تو جناب مجید نظامی نے اس سے الگ ہو کر روزنامہ ندائے ملت کا اجراءکیا اور اللہ کے فضل و کرم سے اس میں بھی کامیاب ہوئے۔ بعدازاں احباب کے اصرار پر انہوں نے نوائے وقت کا ڈیکلریشن اپنا لیا اور اس کو اپنی بھابھی اور انکے بچوں سے خرید لیا۔اس وقت روزنامہ نوائے وقت خسارے میں تھا لیکن محترم مجید نظامی نے شب و روز کاوشوں کے طفیل اسے پروان چڑھایا اور آج یہ ایک زبردست قومی ادارے کی صورت قائم ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ محترم مجید نظامی نے اپنی بے انتہا مصروفیت کے باوجود پنجاب کے درویش صفت وزیراعلیٰ جناب غلام حیدر وائیں مرحوم کے ذریعے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی داغ بیل ڈالی۔ان دنوں ہمیں بھارت کی ثقافتی یلغار کا سامنا ہے جس کے باعث ہماری نوجوان نسل کبھی کبھی یہ سوال کرتی ہے کہ اگر ہندوستان کی تقسیم عمل میں نہ آتی تو بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی کل آبادی متحدہ ہندوستان میں اتنی زیادہ ہوتی جسے کسی صورت نظر انداز نہ کیا جا سکتا۔اسی طرح آج کل ہمارے ہاں کچھ دانش ور‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کچھ مخصوص حلقے اور ثقافتی طائفے پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں ”امن کی آشا“ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس تناظر میں جناب مجید نظامی پاکستان کی نسل نو میں نظریہ پاکستان یا دو قومی نظریہ کی ترویج و تبلیغ میں دن رات کوشاں رہے۔ ایوان کارکنان تحریک پاکستان‘ لاہور میں موسم گرما کی تعطیلات میں باقاعدگی سے ہر سال نظریاتی سمر سکول کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ روزانہ کسی نہ کسی تعلیمی ادارے کے طلباءو طالبات اپنے اساتذہ کرام کے ہمراہ اس ایوان کا دورہ کرتے ہیں جس کے دوران انہیں ان کی شاندار تاریخ‘ اسلاف کے کارناموں اور وطن عزیز کے روشن مستقبل کے حوالے سے حوصلہ افزا معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ انہیں حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے افکار سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ اسی طرح نظریاتی تعلیمی موبائل یونٹس مختلف سکولوں‘ کالجوں اور دینی مدرسوں میں جا کر پاکستان آگہی پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ طلباءکو ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں لانے اور لے جانے کےلئے حکومت پنجاب نے بسیں اور ویگنیں فراہم کی ہیں جن کی بدولت ان تعلیمی اداروں کے طلباءبھی اس ایوان کا دورہ کر پاتے ہیں جو اپنے طور پر آمدورفت کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے۔اسی طرح حکومت پنجاب کے محکمہ تعلیم کے تعاون سے کالجوں اور سکولوں کے اساتذہ کرام کےلئے باقاعدگی کے ساتھ نظریاتی تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز کے بیشتر شہروں میں نظریہ پاکستان فورمز قائم ہو چکے ہیں۔ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں انتہائی قابل محققین تحریک پاکستان اور متعلقہ موضوعات پر مستند کتابیں اور کتابچے تحریر کرتے ہیں۔جناب مجید نظامی کی کوششوں کی بدولت ایوان کارکنان تحریک پاکستان سے ملحقہ اراضی پر اب ایوان نظریہ پاکستان اور جوہر ٹاون‘ لاہور میں 48 کنال اراضی پر ایوان قائداعظم کی تعمیر ممکن ہوئی۔ ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024