دنیاوی ڈیوٹی، مکمل !
13 دسمبر 2014 میراکالم دنیاوی ڈیوٹی چھپا تھا۔ اسلام آباد کے مختلف کالجوں میں پڑھانے والے ایک بزرگ استاد پروفیسر ڈاکٹر عطاءاللہ کے ذریعہ ملنے والے ایک نئے ”دوست“ عبدالواحد باجوہ کے بارے میں چند واقعات لکھنے کی جسارت کی تھی۔ ان کی اپنے بابا جی کے ساتھ 60ءکی دہائی میں حضرت بری امام سرکارؒ سے ملاقات کے علاوہ 1985ءعراق )بغداد( میں بحیثیت انجینئر پی ٹی وی تعیناتی کے دوران غوثِ اعظم حضرت عبدالقادر جیلانی کے مزار شریف پر حاضری اور غوث زمان سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا : دورانِ ملازمت باجوہ صاحب کی ایک سال کے لیے بغداد میں ٹرانسفر ہوئی تھی۔ عرصہ مکمل ہونے کے بعد ان کے پاس دو آپشن تھے۔ اول کہ وہاں قیام کی توسیع کروالیں ۔ دوسرا ملک واپس آ جائیں۔ حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ غوث پاک سے مشاورت کر لی جائے۔مزار شریف پر حاضر ہوئے۔ مسئلہ پر ان کی رائے )احکامات( اور مزار پر چڑھائی بہت سی چادروں میں سے ایک چادر کا ان کے مبارک ہاتھوں سے تحفہ لینے کی درخواست کر کے عبادت میں مشغول ہو گئے۔ گو غیبی اشارہ ملا مگر تسکین نہ ہوئی۔ دوسرے دن دوبارہ حاضر ہوئے۔ سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں رش بالکل نہ تھا۔ مزار شریف کے اندر داخل ہونے لگے تو ملحقہ احاطہ میں کچھ با نقاب شخصیات سفید لباس گول دائرہ میں تشریف فرما تھیں۔ یکدم آواز آئی اِدھر آﺅ! چونکہ ہر ہفتہ وہاں حاضری دیتے تھے۔ جگہ جگہ سے واقف تھے ایسا منظر پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ پھر دوسری آواز پر متوجہ ہوئے۔ صاحبِ آواز کے سامنے جگہ خالی ہو گئی۔ با ادب جا بیٹھے چہرہ مبارک سے ہلکا سا نقاب ہٹاتے ہوئے انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے غیبی طور پر عراقی قہوہ کا ایک کپ پیش کیا۔ قہوہ ختم ہونے پر انہوں نے فرمایا ۔ یہاں قیام بارے آپ جاننا چاہ رہے تھے۔ واپس اپنے ملک اور بچوں میں چلے جاﺅ کہ یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ باجوہ صاحب نے شکریہ کے انداز میں سر جھکایا، اٹھے۔ ابھی چند قدم ہی چلے تھے کہ دوبارہ آواز آئی ادھر آﺅ۔ باجوہ صاحب دوبارہ اسی نشست پر بیٹھ گئے۔ ”تم نے کوئی فرمائش کی تھی“۔ یہ لو چادر، باجوہ صاحب احتراماً جھکے۔ چادر وصول کی شکریہ ادا کیا اور رخصت لی۔ ملک واپس آ کر چادر کے تقریباً 2-1/2 انچ کے ٹکڑے بنائے اور غوثِ زمان کے ساتھ عقیدت رکھنے والوں میں )ان کی اجازت سے( وہ ٹکڑے تحفتہً پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ باجوہ صاحب لاہوری پنجابی میں زیادہ بات کرتے۔ کہتے جب یہ ٹکڑے ختم ہونے کے قریب ہونگے تو ان کی یہ ”دنیاوی ڈیوٹی“ مکمل ہو جائے گی۔ اس کے بعد متعدد بار باجوہ صاحب سے ملاقاتیں رہیں۔ اسلام آباد "15" کے عقب میں سرکاری کوارٹرمیں بیٹے کے ساتھ رہتے تھے جب فون کرتے۔ میں حاضر ہو جاتا۔ کسی ”ڈھابہ ہاﺅس“ میں بیٹھ جاتے۔ لنگر اور چائے ہوتا۔ کبھی کبھی وہیں دیگر دوست بلا لیتے یا پھر کبھی کبھی ”مخصوص“ دوستوں کے پاس حاضری دیتے ان ملاقاتوں میں ڈیڑھ سارے واقعات سننے میں ملے۔ ایک دن بڑے موڈ میں کہنے لگے کہ اپنے پاس ایک ٹوپی اور تسبیح رکھ لینا۔ اگلی ملاقات میں ایک خاص چیز دکھاﺅں گا۔ ملاقات پر فرمانے لگے۔ قاری خوشی محمد )مرحوم( ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے دفتر میں تواتر سے آیا کرتے ایک بار کہنے لگے باجوہ صاحب آپ کے پاس کوئی ٹوپی اور تسبیح ہے۔ اثبات میں جواب سنکر گاڑی تک گئے اور ایک پیکٹ نکال لائے۔ تفصیل بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ چند دن قبل میں صدر ضیاءالحق کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے گیا۔ سعودی حکمران ہمارے صدر کا بہت خیال رکھتے ان کا روضہ رسول کے اندر جانے کا اہتمام کرواتے۔ اس بار حاضری پر صدر صاحب کے ساتھ میرے سمیت چار لوگ اور تھے۔ ہمیں بھی روضہءرسول کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ڈھیر ساری دعاﺅں کے علاوہ ٹوپی اور تسبیح روضہءرسول سے مس کی۔ آپ بھی اپنی ٹوپی اور تسبیح اس سے مَس کر لیں کہ میں اس سے بڑا اور کوئی تحفہ آپ کو نہیں پیش کر سکتا۔ باجوہ صاحب کی جس جس سے محبت تھی اس تحفہ سے فیض یاب کرتے رہے۔ بھلا اس سے بڑھ کر وہ دوستوں )مخصوص( کی اور کیا خدمت کرسکتے تھے۔ مجھ سمیت کئی دوستوں پر ان کا یہ احسانِ عظیم تھا۔ جس پر ہم سب زندگی کی آخری سانس تک ان کے ممنون رہیں گے۔ ڈاکٹر عطاءصاحب نے ہی سال بھرقبل اپنے ایک دوست راجہ اشتیاق احمد سے ملاقات کرائی راجہ صاحب ایک فیڈرل ادارہ کے افسر اور نارہ موٹور کے قریب گاﺅں ممیام شریف کے آبائی رہائشی ہیں۔ تعارف کے شروع آٹھ دس ماہ فون پر تو بات ہوتی رہی لیکن ملاقات نہ ہو سکی۔ تاہم پہلی ہی ملاقات میں یہ اندازہ ہو گیا کہ راجہ صاحب تصوف اور روحانیت کے ”طالب علم“ ہیں۔ جولائی کا آخری ہفتہ تھا۔ باجوہ صاحب کہنے لگے یار کسی ”سُچے“ آدمی سے ملاقات کراﺅ۔ میں نے دماغ پر زور ڈالنے کے بعد راجہ اشتیاق صاحب کو فون کیا۔ حال دل بیان کیا تو کہنے لگے مجھے بھی چھٹی حِس اطلاع دے چکی تھی۔ ابھی اور اسی وقت آ جائیں۔ گھنٹہ ڈیڑھ خوب گپ شپ رہی۔ اگلی ملاقات کے وعدہ وعید پر انہوں نے باجوہ صاحب کو اپنا سیل نمبر بھی دیا۔ 17 اگست میں ایک بزرگ )حاجی چوہدری نذیر احمد صاحب( سے ملنے بلیو ایریا ان کے دفتر گیا۔ تقریباً ایک بجے باوا جی )سید ذاکر بخاری( کا فون آیا۔ کہ باجوہ صاحب آئے ہیں اور تمہارا پوچھ رہے ہیں۔ حاجی صاحب سے اجازت طلب کر کے سیدھا وہاں پہنچا۔ طلعت صاحب بھی موجود تھے۔ باوا جی کے لنگر اور چائے سے مستفید ہوئے۔ ڈیڑھ ساری گپ شپ ہوئی۔ اس دوران باجوہ صاحب نے بتایا کہ میں راجہ اشتیاق صاحب کو ملنے دفتر گیا تھا۔ مگر ڈی جی آفس گئے ہوئے تھے۔ ان سے اجازت لے کر میں نے راجہ صاحب کو فون کیا۔ کہنے لگے شاید اسی لیے میں گھر جلدی آ گیا کہ آپ کو چائے پیش کر سکوں ہم ادھر دو گھنٹے رہے۔ گفتگو کا محور۔ بابے۔ اہل بیت اور عشق محمد صاحب تھا۔ تقریباً شام سات بجے باجوہ صاحب کو ڈراپ کرنے ان کے گھر آیا۔ وہاں ان کے بیٹے شاید باجوہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ باجوہ صاحب بار بار کہتے یار ایک کپ چائے اور ہو جائے۔ میں یہی کہتا رہا کہ اب تو گنجائش ہی نہیں۔ دو تین دیگر دوستوں کا ذکر ہوا تو باجوہ صاحب کہنے لگے میں انہیں ہر صورت کل ملوں گا۔ کچھ چیزیں پہنچانی ہیں۔ 18 اگست رات گیارہ بجے مجھے شاہد باجوہ کا فون آیاکہ والد صاحب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ الشفاءہسپتال میں آئی سی یو میں ہیں اور انتہائی سیریس ہیں۔ میرے دماغ میں ساری ”ریل“ چلنا شروع ہو گئی۔ ان کے اوپر چھپنے والے پہلا کالم پڑھ کر میری ایک قاریہ ”آنٹی جان“ نے فون کر کے بڑی تعریف کی۔ آنٹی ماشاءاللہ بذات خود بھی تصوف کے اعلیٰ
مقام پر فائز ہیں۔ ان کے گھر میں ہفت روزہ محافل باقاعدگی سے ہوتی ہیں۔ باجوہ صاحب کو جب بتایا تو کچھ عرصہ بعد انہوں نے کہا کہ یار آنٹی سے جلدی لاﺅ۔ بغداد شریف کا حکم ہے کہ تحفہ جلدی پیش کیا جائے۔ میں نے 17اگست اُن کے سامنے دوبارہ آنٹی کو فون کیا۔ لیکن بات نہ ہو سکی۔ تاہم باجوہ صاحب کی بے چینی دیکھنے کے لائق تھی۔ صبح 5 بجے کے قریب مجھے شاہد کا فون آیا کہ والد صاحب دنیاسے رخصت ہو گئے ۔ میں اور اشتیاق صاحب ان کے گھر گئے۔ شاہد سے ملے۔ مختصر تفصیل پوچھی۔ کہنے لگا صبح سے بہت جلدی میں تھے۔ بار بار امانتوں کا ذکر کرتے رہے۔ شام 7 بجے تک مصروف رہے۔ یکدم کوئی خیال آیا تیزی سے باہر نکلے اور کچھ ہی دیر میں حادثہ پیش آ گیا۔ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے باجوہ صاحب کہہ رہے ہوں۔ میری دنیاوی ڈیوٹی مکمل! بس آ گئی تھی میں تو سوار ہو گیا ہوں آگے بھی تو کچھ انتظامات کرنا ہیں! خدا حافظ!