پاکستان کا ڈوناٹرمپ اور نئی سیاسی پار ٹی
میرے ایک جاننے والے کا رات فون آیا ہے مجھے پتہ ہے آپ سو رہے تھے ۔پھر خود ہی کہا ،خیر کوئی بات نہیں اب آپ جاگ چکے ہیں ویسے بھی کم سونے کی عادت ڈالنی چاہیے ۔ پوچھا جناب نے مجھے جگا نا کیوں ضروری سمجھاگیا ؟ کہا بس ایک آئیڈیا ذہین میں آیا تھا سوچا شئیر کرلوں۔ میں فون اٹھاکر بیڈ روم سے ڈرئنگ روم میں چلا آیا تاکہ فیملی ڈسرب نہ ہو ۔ پوچھا اب بتاﺅ مجھ سے کیوں شیئر کرنا ضروری سمجھا ۔ ہنستے ہوئے کہا اس لئے ضروری سمجھا کہ ایک تو آپ قانون دان ہیں اور دوسرا دانشو اور لکھاری بھی ہیں ۔میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا کام کی بات کرو کہا کیا آپ امریکہ میں اٹلاٹنک سٹی ( Atlantic City) اور لا س وے گس ( Las Vegas) کبھی گئے ہیں ۔کہا ہاں کہا پھر تو تاج محل کیسنو ( (Casinoبھی دیکھا ہو گا ۔کہا جی ہاں ۔ تمہیں کیاپتہ ہے اس کا مالک کون ہے؟کہا ڈونا ٹرمپ ۔ کہا کیاتمہیں پتہ ہے یہ ڈونا ٹرمپ بلڈر اور ڈ یولپر ہے۔ اب امریکہ کی مشہور سیاسی پارٹی ر یپپلکن کا صدارتی امیدوار بھی ہے۔ اسی پارٹی کے جارج بش فیملی بھی صدر رہ چکے ہیں ۔ میں نے کہا بھائی آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں کہا جلدی نہ کرو ،حو صلہ رکھو ۔ کہا میں کہہ رہا تھا کہ پاکستان کے حالات پر اگر غور کریں گے تو سیاسی حالات ہمارے کچھ اچھے دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔کراچی میں جو کچھ ہوا اس کے بعد یہ سیاسی جماعت کہلانے کا حق نہیں رکھتی ۔ اس جماعت کے قائد پہلے بھی قائد الطاف تھے آئندہ بھی وہی ہونگے ۔ تبدیلی یہ بتائی جارہی ہے کہ اب اس پارٹی کے فیصلے پاکستان میں اور لندن میں بیٹھے پارٹی کے لوگوں سے مشورے ہونگے ۔لندن میں بیٹھے پارٹی لوگ الطاف کے ہی ہیں ۔ یہ سب کچھ لگتا ہے کہ ایم کیو ایم اس مشکل گھڑی سے نکلنے کی کوشش میں ہے ۔ ماضی میں بھی ایسے ہی واقعات ہوتے رہے پھر معافی مانگ لیتے تھے ۔ ایسا ہی کچھ اس بار کیا گیا ۔ لیکن اس بار حالات کو یہ جماعت سمجھ نہیں سکی ۔ عام آدمی سمجھتا ہے کہ ایم کیو ایم پر بین لگا دیا جائے جب کہ ایسا کرنا حکومت کے لئے کیا کسی کےلئے بھی آسان نہیں ۔ یہ لوگ اسمبلیوں میں بھی ہیں سینٹ میں بھی ہیں ،صوبائی اسمبلی میں بھی یہ دوسری بڑی پارٹی ہے۔ لہذا ان کے ساتھ کیا کرنا ہے ،ان کی جگہ کون لے گا ۔ ان کا ووٹر کہا جائے گا ۔ان کے لیڈر وں کا کیا بنے گا ۔بہت سے سوال ہیں جن کے جواب نہیں بن پا رہے ۔ہمارے ملک کی چند ایسی پارٹیا ں ہیں جو سیاسی نہیں ہیں ۔ اگر ادارے مضبوط ہوتے تو سیاسی جماعتیں سیاست ہی کرتیں ۔ خدا راہ عدالتی نظام کو ٹھیک کرو ۔ ملک میں سیاسی افراتفری کو عدالتیں نظام ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔ میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ اس وقت مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور چند مذہبی جماعتیں نظر آتی ہیں ۔ حال ہی میں آزاد کشمیر میں الیکشن ہوئے جس میں تمام جماعتیں مسلم لیگ این سے بری طرح مات کھا چکی ہیں ۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کبھی چاروں صوبوں کی زنجیر ہوتی تھی لیکن اب یہ صرف ایک صوبے کی جماعت ہو کر رہ گئی ہے ۔ اگر اس جماعت کے یہی حالات رہے تو شائد سندھ سے بھی پیپلز پارٹی کی چھٹی ہو جائے ۔ اس کے بعد تحریک انصاف اور ن لیگ میدان میں رہ جاتی ہیں ۔مسلم لیگ ن ہی اس وقت کامیاب ترین سیاسی جماعت دکھائی دیتی ہے ۔جب کہ تحریک انصاف دھرنوں کنٹینروں اور سڑکوں کی سیاست کر تی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ جماعت ملکی ایشو پر بات نہیں کرتی ، قانون سازی پر کام نہیں کرتی ۔ کے پی کے میں عمران کی جماعت اقتدار میں ہے ۔لیکن کیا مجال کہ وہ اس صوبے کو مثالی صوبہ بنانے میں کوئی کردار ادا کیا ہو ۔ حالات ایسے رہے تواگلے الیکشن میں یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ن لیگ ایک بار پھر بھاری منڈیٹ سے اقتدار میں آ ئے گی ۔ میں نے کہا خوش کر دیا ۔ کہا خوش نہ ہوں ۔ اب آگے سنو جس ملک میں اپوزیشن مضبوط نہیں ہوتی وہاں ترقی بھی نہیں ہوتی ۔ ترقی کےلئے مضبوط اپوزیشن کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا حشر آزادکشمیر کے حالیہ الیکشن جیسا آئندہ آنے والے پاکستان کے الیکشن میں ہوا تویہ اچھا نہیں ہوگا ۔ لہذا اب وقت کی ضرورت ہے کہ ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آئے۔ میں نے بات کا ٹتے ہوئے کہا شائد آپ کو نہیں معلوم کہ اس سال دو نئی سیاسی پارٹیاں دجود میں آ چکی ہیں ۔ ایک کراچی کی پاک سرز مین پارٹی اور دوسری افتخار چودھری کی جسٹس پارٹی ۔ کہا یہ جماعتیں تو بن کھلے کے مرجھا چکی ہیں ۔ پوچھا پھر آپ کس کی بات کر رہے ہیں کہا اگر امریکہ میں بلڈر اور ڈویلپر ر پلیکن پارٹی کا صدارتی امیدوار ڈونا ٹرمپ ہو سکتا ہے تو ہمارے پاکستان کا بلڈر اور ڈیولپر کیوں نہیں سیاسی جماعت بنا سکتا ۔ پوچھاآپ کہنا کیا چاہ ر ہے ہیں ۔کہا اب غور سے سنو ہمارے ملک میں بھی ایک بلڈر ، ڈ یولپر موجود ہے جو میرے نزدیک پاکستان کا ڈونا ٹرمپ جیسی حثیت کا مالک ہے ۔یہ پاکستان میں ایک نئی پارٹی بنا سکتے ہیں ۔ میں اس نئی جماعت کا نام پاکستان ڈولپمنٹ پارٹی تجویز بھی کر دیتا ہوں ۔ہمارے اس ڈیولپر اور بلڈر کے پاس بھی پیسوں کی کمی نہیں جہاز ان کا اپناہے ۔ بڑے بڑے پراجیکٹ بنا نے کا یہ وسیع تجربہ بھی رکھتے ہیں ۔ان کے ادارے میں ریٹائرڈ جنرلز ، سپریم ریٹائرڈ ججزز ، قلمکار اور ممتاز وکلا ہیں ۔اگر یہ ڈیولپر بلڈر نئی پارٹی بنا لیتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگلے الیکشوں میں یہ پارٹی کامیابی حا صل نہ کر سکے ۔ پلیز اس پر سوچیں ۔یہ بات ختم کرتے ہی کہا اچھا خدا حافظ اور فون بند کردیا۔ اپنے اس دو ست کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ ملک میں نئی سیاسی جماعت کی گنجائش موجود ہے ۔