این اے 246-کا سیاسی معرکہ تمام ہوا۔ذرائع ابلاغ نے صرف ایک نشست کو اتنی اہمیت دی کہ زندگی موت کا مسئلہ بنا دیا۔کراچی شہر ہی نہیں پورا ملک اس حلقے کے بخار میں مبتلا تھا۔ مہم کا وقت ختم ہونے کے باوجود چینلوں پر انتخابی قواعد وضوابط کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ میدان میں اتری تینوں قابل ذکر جماعتوں کے تیسرے درجے سے لے کرمرکزی قیادت تک کے رہنما اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں پولنگ کے اوقات تک مہم چلاتے رہے۔ صبح شام حق وصداقت کا علم لہرانے اور اصولوں کی بات کرنے والے ٹی وی میزبان بھی انتخابی ضابطوں سے قطع نظرحلق پھاڑ پھاڑکر بے تکے سوالوں میں لپٹے اپنے دل پسند تجزئیے دیتے رہے اور اپنی خواہشوں کے لڈو ناظرین کے من میں پھوڑتے رہے۔ صرف ایک نشست کے لئے اتنے بڑے پیمانے پرواویلا ٗ خصوصی نشریات کااہتمام ٗ بڑے بڑے منجن فروشوں کی مختلف چینلوں پر جلوہ نمائی ٗ یہ ضمنی انتخاب تھا کہ جنگ ٗ بالآخر اختتام پذیر ہوئی اور نشست وہ لے گئے جن کا قبضہ تھا ٗ قبضہ سچا دعویٰ جھوٹا۔ الیکشن 2013ء میںکراچی کا رخ کرنے والا تبدیلی کا سونامی اپریل2015ء کے ضمنی انتخاب میں نائین زیروکے قلعے کی مضبوط دیواروں سے ٹکراکر کمزور پڑگیا۔ لاہورکی متحدہ کراچی کی متحدہ سے ٹکرا گئی لیکن اسے فتح کرنے کا خواب ابھی تک ادھورا ہے۔ جماعت اسلامی بھی اپنا ماضی کاسیاسی ورثہ واگزارکرانے کے لئے پرجوش تھی ٗ مگر مایوسی اس کا بھی مقدر بنی۔ انتخابی مہم کے دوران جماعت کے امیر سراج الحق خاصے متحرک رہے اور وقتاً فوقتاً کراچی میں جلسے کرکے ایک بار پھرکراچی فتح کرنے کی کوششوں میں جتے رہے۔ عمران خان آخری وقت تک جماعت کو اپنے امیدوار عمران اسمٰعیل کے حق میں دستبردارکرانے کے لئے مناتے رہے ٗ جماعت نہیں مانی بلکہ اس نشست پر اپنا حق جتاکر تحریک انصاف کے میدان چھوڑنے کے لئے مصر رہی لیکن عمران خان کی ضد کے آگے کسی کی نہیں چلی۔ وہ کراچی کے عوام کو متبادل سیاسی قوت کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ خیبر پی کے کے اتحادی کراچی میں سخت حریفوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے ڈٹے رہے جس کا براہ راست سیاسی فائدہ ایم کیوایم کو ہوا۔ گو کہ اس بار ٹرن آئوٹ ماضی کے مقابلے میںذرا سا کم رہا ٗجس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ضمنی انتخاب تھا ٗ ضمنی انتخاب میں ہمیشہ اور ہر جگہ ٹرن آئوٹ عام انتخابات سے کم ہی رہتا ہے ٗ پھر بلا کی گرمی تھیٗ بیمار اور بزرگ عورتیں اور مرد نہیں نکل سکے ٗ شناختی کارڈ کی شرط پر سختی سے عملدرآمد ہواٗ پولنگ کا عمل سست رہا ٗ امیدواروں کوکھل کر موقع نہیں دیا گیا کہ وہ ووٹروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں ٗ ویگنوں میں بھر بھرکر لا سکتے۔ سختیاں بہت تھیں جس کی بدولت انتخاب میں شفافیت کا عنصر نمایاں رہا ٗ جس کا کریڈٹ الیکشن کمیشن کو تو نہیں البتہ امیدواروں ٗ شریک جماعتوں کی مقامی قیادتٗ رینجرز ٗ پولیس اورسندھ حکومت کو جاتا ہے۔ اسی کی دہائی کے وسط سے ٗ جب سے سندھ کاشہری مینڈیٹ ایم کیو ایم کے حصے میں آیا ہے ٗ ایم کیو ایم این اے246- کی نشست بہ آسانی جیتتی رہی ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیاکے مصداق جمودکو توڑنے کی بڑی کوشش کی مگر ایم کیو ایم ٗالطاف حسین کی براہ راست نگرانی اور اپنی کمپیوٹرئزاڈ ساخت کی بدولت ایک بار پھر سرخرو ٹھہری۔ نائین زیرو پر چھاپے کے بعد اس نشست پر کامیابی سے ایم کیوایم کو اپنی اخلاقی حیثیت بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ کراچی کو ایم ایم سے آزاد کرانے کے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ٗ ایم کیو ایم نے ایک بار پھر آسانی سے یہ میدان مار لیا۔کوئی کہے کہ وہ بڑھکیں مارکر اس گئے گزرے زمانے میں بھی لاڑکانہ یا نائین زیرو فتح کر لے گا ٗ زمینی حقائق سے ہٹ کر بات ہوگی۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ٗ جان محمدعباسی اور ڈاکٹر خالد محمود سومرو کئی بار میدان میں اترے ٗ لاڑکانہ کا سیاسی قلعہ فتح نہ ہو سکا۔ ذوالفقارعلی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید مرتے دم تک یہاں ناقابل شکست رہے۔ ان رہنمائوں کی شہادتوں کے بعد بھی لاڑکانہ کی فتح پیپلز پارٹی مخالف جماعتوںکے لئے ایک خواب ہی رہی۔ نائین زیرو بھی الطاف حسین کا سیاسی قلعہ ہے۔ یہاں ان کا گھر 90 ہے جسے سندھ کے اردو بولنے والے سیاسی قبلہ سمجھتے ہیں۔ ایم کیوایم کی اٹھان سے پہلے یہ علاقہ جماعت اسلامی کاگڑھ تھا لیکن 1988ء سے ناقابل تسخیر ہے اور یہاں سے ہمیشہ الطاف حسین کا نامزد امیدوار اسمبلی میں جاتا ہے۔
ایک بات تو ہے کہ اس حلقے میں برسوں بعد ایک سیاسی معرکہ دیکھنے کو ملا اورگوکہ یہ مقابلہ یک طرفہ ہی رہا۔ ہاںجماعت اسلامی اور تحریک انصاف مشترکہ امیدوار میدان میں لاتیں تو شاید نتیجہ کچھ اور برآمد ہوتا۔ لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ این اے 246- کا ضمنی انتخاب ایم کیوایم کے لئے سیاسی زندگی اور موت کا مسئلہ تو تھا ہی ٗ کیونکہ وہ اس وقت سنگین الزامات کی زد پر ہے اور مشکلات سے دوچار ہے ٗ اس کے باوجود کراچی کے مستقبل کی سیاست کارخ دراصل اس ضمنی انتخاب سے ہونا ہے۔ لاہور ہر بیس سال بعد اور کراچی ہر تیس سال بعد سیاسی کروٹ لیتا ہے ٗ لاہورکروٹ لے چکا ہے اور نون لیگ سے منہ موڑ کر اپنی امیدیں تحریک انصاف سے وابستہ کر چکا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ آنے والے عام انتخابات کراچی کی سیاسی جون بدلنے کا سبب بنیں گے۔ ان حالات میں کراچی میں پیدا ہونے والاسیاسی خلاکون پرکرے گا؟ اصل سوال یہ ہے اور ساری جنگ صرف یہ ضمنی انتخاب جیتنے کے لئے نہیں ٗ آنے والے کل کیلئے تھی۔ تحریک انصاف اور جماعت نظریاتی قربتوں کے باوجودکراچی میںسیاسی فتح کے حوالے سے اپنا اپنا ایجنڈہ رکھتی ہیں اور دونوں اپنے عزائم سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024