چشتی صدر شی چن پنگ کا دورہ پاکستان نہ صرف پاکستان کیلئے باعث فخر ہے بلکہ مسلم لیگ ن کے سیاسی قد کاٹھ میں بھی اضافے کا باعث ہے۔ چین کیساتھ ہونیوالے چھیالیس ارب ڈالر کے (51) منصوبے پاکستان کی تقدیر بدل دینگے (انشاء اللہ) ان منصوبوں میں تجارتی، دفاعی، بجلی کی پیداوار اور اقتصادی راہداری کے منصوبے قابل ذکر ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل کا دورانیہ تقریباً پانچ برس ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار کی آئندہ ٹرم بھی مسلم لیگ ن ہی کی ہوگی۔ امید ہے کہ چین کیساتھ معاہدات کی مد میں جو رقم بھی پاکستان کو ملے گی وہ سو فیصد ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کیلئے خرچ ہوگی۔ ہمیں میاںمحمد نواز شریف، میاںمحمد شہباز شریف اور انکے رفقائے کار پر مکمل اعتماد ہے کہ ان منصوبوں کاایک روپیہ بھی خرد برد نہیں ہونے دینگے۔ کیونکہ گزشتہ ادوار میں بھی جن میں پیپلزپارٹی اور کئی فوجی آمروں کی حکومتیں رہی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، روس اور دیگر ممالک کیساتھ کئی ترقیاتی منصوبے طے پاتے رہے ہیں لیکن ان منصوبوں کی رقم کبھی بھی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ نہیں کی گئی بلکہ ہر حکومت نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی تجوریاں بھرنے میں ساری رقوم ہڑپ کرلیں۔ اور ملک روز بروز قرضوںکی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ مسلم لیگ ن نے بھی حکومت سنبھالتے ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے بے پناہ قرضے لے لئے اور اس وقت پاکستان کی معاشی صورتحال بھوٹان اور سری لنکا سے بھی ابتر ہے۔ معاشی ترقی کا حصول کوئی راز کی بات نہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہماری زرعی پیداوار ہمیں چند برسوں میں دنیا مضبوط ترین معیشت مہیا کر سکتی ہے لیکن یہاں پلاننگ اور نیک نیتی کی کمی ہے جسکے باعث ہمیں گندم، چاول، چینی حتی کہ سبزیاں اور پھل بھی بھارت سے درآمد کرنا پڑ رہے ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک با ت ہے۔ ابھی صنعتی پیداوار کا ذکر میں نے نہیں کیا کہ پاکستان میں بننے والا کپڑا، جوتے، کھیلوں کا سامان، سرجری کے آلات اور دیگر بے شمار مصنوعات کی برآمد سے پاکستان کو کروڑوں بلکہ اربوں، ڈالر سالانہ آمدن ہوسکتی ہے لیکن یہاں بھی سرخ فیتہ حائل ہے اور ملکی مصنوعات کے بجائے غیر ملکی مصنوعات درآمد کرنے پر کروڑوں، اربوں ڈالر سالانہ دوسرے ممالک کو دئیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں اول تو گنگا بہتی ہی نہیں۔ اگر بہتی بھی ہے تو الٹی۔ چین کیساتھ ہونیوالے تجارتی، دفاعی، پیداواری اور اقتصادی معاہدات کیساتھ ساتھ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اقتصادی راہداری کے علاوہ تعلیمی راہداری بھی بنائی جاتی کیونکہ یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک سر بلند اور غالب نہیں ہوسکتی جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہو، چین کیساتھ تعلیمی معاہدات بھی کرنے چاہئیں اور اقوام متحدہ کی حالیہ قرارداد کیمطابق شرح خواندگی میں اضافے کیلئے مقامی زبان میں تعلیم دینی چاہئے۔ ہمیں امید تھی کہ مسلم لیگ ن کی حکومت ملک میں یکساں نظام تعلیم کیلئے پالیسی بنائے گی لیکن ابھی تک اس ضمن میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ پس پردہ کوئی کام ہو رہا ہے تو کچھ کہہ نہیں سکتے۔ لیکن بظاہر یوں معلوم ہو رہا ہے کہ حکومت کا تعلیم کی طرف کوئی دھیان نہیں ہے۔مجھے یہ خبر پڑھ کر خوشی بھی ہوتی اور مایوسی بھی کہ چین صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے جو خطاب کیا وہ انہوں نے اپنی زبان یعنی چین زبان میںکیا۔ تو کیا اسکا یہ مطلب لیا جائے کہ چینی صدر کو انگریزی بولنا آئی نہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ وہ قوم ہے جو کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں۔ اسی لئے آج دنیا کی تیسری پاور بن چکی ہیے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو تعلیم کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہئے اور ملک کو یکساں نظام تعلیم کی پالیسی پر عملاً گامزن ہوتا چاہئے اور انگریزی فوبیاً سے جان چھڑا کر اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا چاہئے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں تعلیم یافتہ ہوسکیں اور ہم دنیا میں عزت و آبرو سے نہ صرف جی سکیں بلکہ دینا پر اپنا تسلط بھی دوبارہ حاصل کرسکیں اور یہ ہدف سو فیصد حاصل کرنا تعلیم کے بغیر ممکن نہیں …؎
لا پھر اک بار وہی باوہ و جام ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38