ٹی وی آن کیا تو یوں لگا صحرائی طوفان امڈ آیا۔ سر میں ریت‘ آنکھوں میں ریت‘ کانوں میں ریت‘ منہ میں ریت‘ ہر جانب ہر سمت ریت ہی ریت! الاماں الحفیظ! خاکم بدہن وطن عزیز پر ایٹمی حملہ ہو گیا‘ خوفناک زلزلہ آگیا یا کوئی اور ناگہانی آفت آگئی۔ چیخ و پکار‘ دشنام پھٹکار‘ الزامات کی بوچھاڑ! بھئی کیا ہو گیا آخر کوئی تو بتائے؟روزانہ کا معمول‘ خودکش دھماکے‘ خوفناک حادثے‘ موت کے سائے‘ خون میں نہائے معصوم عوام… ایک صحافی پر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔ بے حد عظیم سانحہ ہو گیا‘ عظیم ترین حادثہ ہو گیا۔ اتنا بڑا حادثہ کہ اس کے نتیجہ میں جو بچ گئے ان کی فہم و فراست دانائی دور اندیشی سب کچھ رخصت ہو گئی۔حادثے سے بچنے والے عظیم‘ عظیم تر بلکہ عظیم ترین دانشور‘ عام حالات میں قوم بلکہ دنیا کی تمام اقوام کو درس و تدریس‘ بحث و تمحیص اور عالمانہ گفتگو کے ذریعہ سیاست‘ معیشت اور علوم دنیاوی و روحانی کی گتھیاں سلجھانے والے نابغہ ہائے روزگار۔ ایک سے بڑھ ایک سیانا‘ مگر سب بہکے ایسے کہ شاید بھنگ‘ چرس‘ گانجے سے بڑھ کوئی گہرا گھٹ سوٹا لگا بیٹھے کہ کچھ ہوش ٹھکانے نہ رہے چل سو چل ناک سے دھواں منہ سے کف! آرمی آرمی آرمی‘ اسائی‘ اسائی‘ اسائی‘ پاشا‘ پاشا‘ پاشا‘ سلام‘ سلام‘ سلام! ایسی غضبناک رٹ! جیسے عبادت گاہ میں بھوت گھس آئے ہوں!
بھئی سانس لو‘ رکو‘ تھمو کچھ ہوش کے ناخن لو۔ اپنے ناموں کے ساتھ پیوست عہدوں اور القابات کو دیکھو‘ کچھ تو لو پھر بولو! ناجی نا۔ یہ بھلا وقت ہے تولنے بھالنے کا۔ آج ابھی اسی وقت۔ استعفیٰ‘ پھندا‘ پھانسی! گھنٹوں (نصف دن) تک ایک تصویر آویزاں کرکے اس کے گرد نشریاتی علماء فضلا کی اداکارانہ دھمال اور والہانہ رقص درویش!نشہ اترا‘ آندھی تھمی‘ ریت جھاڑی‘ چہرے سجھائی دیئے تو پھر تاسف اور پچھتاوے کا دورہ شروع ہوا۔ اتنی ساری کھسیانی بلیاں ایک جگہ علماء و فضلا کے روپ میں! ماشاء اللہ یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا کہ انڈے پہ ہاتھی کھڑا ہو گیا۔ وہی آتش فشاں جو آگ‘ راکھ اور لاوا اگل رہا تھا پھول‘ خوشبوئیں اور پیار کے نغمے بکھیرنے لگا عقل و دانش کے موتی اچھالنے لگا۔ بلیوں کی ماں اتنی پریشان ہوئی کہ اپنے بچے پاؤں تلے لے لئے اور آگ سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ بھئی عقل مندو! یہ کیا کیا اچھے بھلے سنجیدہ حادثے کا مزاحیہ ڈرامہ بنا دیا۔ ڈرامہ بھی طویل دورانئے کا بلا توقف لگاتار ساری قسطیں ایک ہی بار پنجابی محاورے ’’ککڑ مٹی پٹے اپنے سر وچہ پاوے‘‘ والا سین بن گیا۔ شیکسپیئر ہی کی زبان میں… اسے کہتے ہیں ’’Comedy of Errors‘‘ اب کیا ہو گا۔ دور اندیش سیانے وزیراعظم نے بروقت مدہانی لگا دی ہے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرنے کے لئے۔ اب پتہ چل جانے گا کہ دودھ کتنا ہے اور پانی کتنا۔ ملاوٹ کرنے والے ہاتھ بھی سامنے آجائیں گے۔ سرف سوڈا صابن پوڈر کو ملا کر جعلی دودھ بنانے والے بھی ظاہر ہوں گے۔ پھر جب چاک حرکت میں آیا تو صدائی غبار سے نشوونما پانے والے چہرے نمودار ہوں گے۔ دھمال سے اڑنے والی خاک کا حساب ہو گا۔جس نے جتنی خاک اڑائی ہے اس کو اتنا معاوضہ تو ملنا ہی چاہئے آخر محنت ہوئی مزدوری اور مشقت ہوئی ہے مزا تو تب ہے کہ فوج اسائی اسائی پاشا پاشا سلام سلام کرنے والا دھمالی طائفہ الحمرا جیسے وسیع و عریض ہال میں بلایا جائے اور سرعام اپنی محنت کا معاوضہ معہ انعام وصول کرے۔ سوشل میڈیا‘ انٹرنیٹ اور عوامی رائے کی یہی سچی تصویر ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024