نام نہاد آزادی کے بعد بھی اس قوم کو سیاسی و سماجی بے شعوری اور جہالت کی جکڑ بندیوں میں باندھ دیا گیا۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر اس قوم کا مذہبی استحصال کیا گیا، لسانی، جغرافیائی اور برادری ازم کی بنیاد پر اس کا سیاسی اتحصال کیا گیا۔ سیاست جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی بن گئی۔ جمہوریت کا نام پر ملک میں خاندانی بادشاہت اور آمریت مسلط کی گئی اور ملکی وسائل کو عالمی سامراجی قوتوں کے زیر سایہ بے دریغ لوٹا گیا۔ پانچ فیصد طبقہ 80 فیصد ملکی وسائل پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے تو 64فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ کسان جو غلہ پیدا کرتا ہے وہ ایک ایک دانے کو ترستا ہے۔ مزدور جو فیکٹریوں، ملوں اور صنعتوں کو اپنے خون پسینے سے جلا بخشتا ہے، اس کے بچوں کے بدن کپڑوں سے عاری رہتے ہیں، غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہے، ہماری اسمبلیوں، پارلیمنٹ، بیوروکریسی اور عدلیہ میں اس مخصوص طبقہ کے مفادات کی پالیسیاں بنتی ہیں اور قرار دادیں پاس ہوتی ہےں اور اچھے نعرے کے ذریعے اس قوم کو نیند کی گولیاں کھلا کر سلا دیا جاتا ہے۔
ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدد مواصلاتی نظام نے پوری دنیا میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں اور پاکستان قوم کو بھی دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے اپنی محرومیوں کا احساس ہوا ہے اور اپنے اوپر سڑسٹھ سال سے مسلط و ڈیرہ شاہی پر مبنی نظام کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ عمران خان نے قوم کی اس نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی دھڑکن کا ادراک کیا ہے اور اس قوم کے نوجوانوں کے دلوں کی آوازیں بن کر میدان میں نکلا ہے۔ سیاسی بیداری اور قومی شعور ہیں عمران کی اس کاوش کو ملکی تاریخ میں ایک اہم مقامی حاصل رہے گا۔
ڈاکٹر طاہر القادری جو پسے ہوئے اور معاشی محرومیوں کے شکار طبقات کو ساتھ لیکر ان کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور آئین کی عوامی مفاد کے نتاظر میں تشریح کرتے ہیں تو ان کو مداری اور شعبدہ باز کے القاب دیے جاتے ہیں اور بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے کا طعنہ دیتے ہوئے مشترکہ پارلیمنٹ سیشن میں اس کی نقلیں اتاری جاتی ہیں اور ان تحریکات کو غیر آئینی وغیر جمہوری قرار دے کر ان کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ لیکن اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو جس جماد، ڈسپلن اور صبرو تحمل کا مظاہرہ عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے کیا ہے ان نام نہاد جمہوریت پسندوں کے مالک تھے پر کلینک ہے اور مروجہ سیاسی جماعتوں کے جمہوری ہونے پر ایک سوالہ نشان۔ عمران خان اور طاہر القادری جس طرح کے دلکش نعروں کے ذریعے اس قوم کے نوجوان کو جگار رہے ہیں اگر عملی حوالہ سے ان کو حقیقت کا روپ نہ دے سکے تو یہ نوجوان ان کو چھوڑ کر کسی اور سچی انقلابی جماعت کا متلاشی ہوگا۔ عمران خان کے اردگرد اگر انہی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا حصار قائم رہا اور باصلاحیت نوجوانوں کی اگلی صفوں میں جگہ نہ ملی تو عمران جس تبدیلی کے بات کرتے ہیں۔ وہ ایک خام خیالی ہی رہے گی اور شکلیں بدلنے کے علاوہ کچھ نہیں بدلے گا۔ اسی طرح طاہر القادری کو تاریخ سے مٹادیں گے۔ سیاسی و سماجی شعوراور بیداری کی جو لہر پیدا ہو چکی ہے یہ اس وقت تک نہیں تھمے گی جب تک ایک حقیقی انقلابی جماعت اس فاسد ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر ایک عادلانہ سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کو بنیاد نہ رکھ دے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024