قیصر وکسریٰ کے درو دیوار لرزاں ہیں
زمانے کے انداز بدل چکے ہیں۔ اب لوگ بڑے غور سے دیکھ رہے تھے۔ جب کراچی ائرپورٹ فلائٹ کی تاخیر کا سبب بننے والے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر رمیش کمار اور سینیٹر رحمن ملک پر مسافر برس پڑے اور انہیں فضائے استعجاب میں غوط زن ہو کر جہاز سے اترنا پڑا۔ اپنی سبکی کو چھپانے کیلئے رحمان ملک کو یہ کہنا پڑا کہ ” میں بزرگ سیاستدان ہوں۔میرے ساتھ ساتھ ایسا سلوک نہ کریں“۔ رنگ آسماں بدلتا ہے کیسے کیسے۔ یہ بھی زمانے کے چلن ہیں؟ کل اور آج میں کتنا فرق آچکا ہے، لوگوں کی سوچ میں واضح تبدیلی آچکی ہے۔ لوگ انقلاب چاہتے ہیں۔ نیا پاکستان، نیا جمہور جس میں ہر شخص کو انصاف مل سکے۔ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ جس پر پچھلے 68 سالوں دو فیصدے طبقے نے قبضہ کر رکھا ہے۔ 2013ءکے انتخاب میں ہر سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں وی آئی کلچر کے خاتمے کا اعلان کیا تھا مگر اقتدار میں آتے ہی حکمران کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ حکمران کی گاڑیاں بڑی شاہراہوں سے گزرتی ہیں تو کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام کر دیا جاتا ہے۔ کیا غریب عوام کی قسمت میں یہی لکھا ہے۔ جام ٹریفک میں ایمبولینس کے فوری ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے کئی مریض وی آئی پی کلچر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اب عوام کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے۔ ان کی سوچ ایک ہی نقطہ پر مذکور ہو چکی کہ موجودہ حکومت اور نظام کے خاتمہ سے ہی وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ممکن ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کے استعفے کے بغیر لوگ ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک سال میں 100فیصد مہنگائی ہوچکی ہے۔ گڈگورننس اور عوام کی خوشحالی کے نعرے ہوا چکے ہیں۔ اب پی ٹی آئی عمران خان کی آواز میں لوگوں کو اپنا مسیحا دکھائی دیتا ہے جو ان کے بنیادی اور جائز حقوق دلوانے کیلئے میدان میں آچکے ہیں۔ جیسے جیسے عوام کا انقلاب کیلئے مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور سلام آباد میں دونوں جماعتوں کا دھرنا کی مدت ایک ماہ چالیس دن ہوچکی ہے۔ حکومت کے پایہ تخت لرزنے لئے ہیں۔ نہ صرف حکومتی ارکان نے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بلکہ پارلیمنٹ میں تمام مفاد پرست اکٹھے ہو چکے ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پارلیمنٹ عوام سے اظہار یکجہتی اور غریب عوام کیلئے آواز بلند کرتی۔ کیا وزیراعظم کو بچانے کا نام جمہوریت ہے تو ایسی جمہوریت عوام کے حقوق کی ضامن کیسے ہوسکتی ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ایک ہی صف میں کھڑی ہوگئی ہیں۔ ایک طرف پوری پارلیمنٹ اور دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کھڑی ہے۔ جو ” گو نواز گو“ کے بغیر دھرنے ختم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ تبدیلی آئی نہیں بلکہ آچکی ہے۔ اب نئے پاکستان کو وجود میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔