یوں تو ساری دنیا میں خفیہ ایجنسیوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے لیکن پاکستان کے مخصوص حالات میں آئی ایس آئی نے جو اہمیت حاصل کی اس کے سربراہ کے تقرر میں اہلیانِ وطن کی دلچسپی تو قدرتی امر ہے دوسرے ملکوں کے سفارتکاروں اور حکومتی عہدیداروں کی دلچسپی بھی حیران کن نہیں ہے۔ آئی ایس آئی کو اگر دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی قرار دیا گیا ہے تو محض کوئی افسانوی بات نہیں ہے بلکہ اس نے اپنی اعلیٰ ترین کارکردگی کے ذریعہ خود کو دنیا بھر میں منوایا ہے۔ آئی ایس آئی کا یہ کردار دفاعی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ اس کے افسروں اور جوانوں نے سوویت یونین کے پاکستان کے گرم پانیوں تک رسائی کے خواب کو ناکام بنایا بلکہ 1987ءمیں بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کے دماغ میں پاکستان پر حملے کا کیڑا کلبلایا مگر اسے اس وقت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب بھارتی فوج کے حکام اپنی ہر پیش قدمی کے موقع پر ہر مقام پر پاکستانی فوج کو مدِمقابل پا کر حیران پریشان رہ گئے جس کا اعتراف بعد ازاں انہوں نے خود بھی کیا دفاعی محاذ پر آئی ایس آئی کی خدمات کو اگر وطن عزیز میں کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے دشمن بہر صورت تسلیم کرتے ہیں اور کسی بھی خفیہ ایجنسی کے لئے یہ سب سے بڑا اور اہم ترین سرٹیفیکیٹ ہے۔ آئی ایس آئی پر انگشت نمائی ہوئی اور اس کے ذمہ دار صرف سول حکمران ہی نہیں ہیں بلکہ فوجی حکمرانوں کا بھی اس میں خاصا حصہ ہے مثلاً جنرل مشرف کے دور میں (ن) لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک ممبر پنجاب اسمبلی کو گھر سے باہر بلایا گیا باہر باوردی میجر ملاقات کے لئے موجود تھے اور نادرشاہی حکم سنایا کہ آپ کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں ہم فلاں ریسٹ ہا¶س میں منتظر ہیں آکر بتائیں کہ ”کل صبح مسلم لیگ ہا¶س جانا ہے یا سیف ہا¶س جانا ہے۔“ (اگلے دن مسلم لیگ ہا¶س میں چودھری پرویز الٰہی کو مسلم لیگ پنجاب کا صدر منتخب کیا گیا۔ بےنظیر بھٹو نے آئی ایس آئی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے ایک ریٹائرڈ جنرل شمس الرحمن کلو کو اس کا سربراہ بنا دیا تھا جسے عوامی سطح پر ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ فوج میں کب اسے پذیرائی ملی ہوگی پھر زرداری سیٹ اپ میں آئی ایس آئی کو وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کے ماتحت کرنے کی کوشش کی گئی جو ظاہر ہے کہ ناکام ہونی تھی آئی ایس آئی میں پہلی مرتبہ سیاسی ونگ قائم کرنے کا کارنامہ ذوالفقار علی بھٹو نے انجام دیا اور 1974ءمیں جب نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے سربراہ عبدالوالی خان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تو ان کے خلاف ثبوت و شواہد جمع کرنے کی ذمہ داری آئی ایس آئی کے سپرد کی گئی۔ اسی طرح ماضی کے انتخابات میں آئی ایس آئی کے کردار کا تذکرہ ہوتا رہا ہے۔ البتہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ 2013ءکے انتخابات میں کسی جماعت کی جانب سے آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کی بات نہیں کی گئی بلکہ ریٹرننگ آفسروں پر انگشت نمائی کی گئی ہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل عاصم باجوہ سے ایک میڈیا گروپ کا معاملہ بگڑا تو بہت کچھ کہا گیا اور بہت کچھ کہا گیا جو تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح ان سے پہلے سربراہ جنرل شجاع پاشا کی جانب سے عمران خان کی پشت پناہی کے الزامات سامنے آتے رہے۔ یہ سلسلہ اب بھی تھما نہیں ہے بہرحال اب لیفٹننٹ جنرل رضوان اکبرکی صورت میں آئی ایس آئی کو ایک ایسا سربراہ مل گیا ہے جس کے دامن پر کسی کی حمایت یا مخالفت کے کے داغ دھبے نہیں ہیں اور ان کایہ دامن اُجلا ہی رہنے کے قوی امکانات اس لئے بھی ہیں کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ خالصتاً ایک پروفیشنل سولجر ہیں اور سیاسی معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں سے پیدا شدہ صورتحال میں بھی ان کی جانب سے سہولت کار کا کردار بات منوانے کا نہیں بلکہ حکومت کی بات ان تک پہنچانے کا ہی رہا ہے۔ اس لئے جب فوج کا سربراہ سیاست کی آلودگیوں سے خود کو دور رکھے گا تو فوج کے ایک شعبہ کے سربراہ کو کس طرح اس میں ملوث ہونے کی جرات یا ضرورت ہوگی۔ اس بنیاد پر یہ توقع بے جا نہیں ہے کہ آئندہ آئی ایس آئی کا کردار خالصتاً پروفیشنل اور غیر سیاسی ہوگا یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ آئی ایس آئی کا نیا جنم ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024