لمبی لمبی جمائیاں لیجئے
یقیناً جما ئی لینے سے ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ جمائیاں عام طور پر سونے سے پہلے یا جاگنے کے بعد زیادہ آتی ہیں ۔ سونے سے پہلے ہمیں مطلع کرتی ہیں کہ دماغ کو آرام کی ضرورت ہے اور جاگنے کے بعد ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمارا ذہن آسودہ ہو چکا ہے اور نئے کاموں کے بارے میں سوچنے کے قابل ہے۔ نیند سے پہلے آنے والی جمائیوں کو نظرانداز کرنے اور جاگتے رہنے سے دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے اور جاگنے کے بعد آنے والی جمائیوں کو سونے کا پیغام سمجھ لینے سے نہ صرف دماغ آرام پسند ہو جاتا ہے بلکہ جسم بھی آرام پرست بن جاتا ہے۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ لمبی جمائی لینے والے ممالیہ جانوروں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے جبکہ چھوٹی جمائی لینے والے جانور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی کم رکھتے ہیں۔ کتا‘ بلی‘ خرگوش‘ لومڑی اور چوہا چھوٹی جمائی لیتے ہیں جبکہ اونٹ‘ ہاتھی‘ دریائی گھوڑا اور چمپینزی بڑی جمائی لیتے ہیں۔ انسان سب سے زیادہ لمبی جمائی لیتا ہے۔ یوں تمام ممالیہ جانوروں میں سے سب سے زیادہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی انسانوں میں ہی ہوتی ہے۔ اگر سائز کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اونٹ‘ ہاتھی اور دریائی گھوڑا انسان کی نسبت بہت بڑے ہوتے ہیں لیکن جمائی انسان کی لمبی ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عقل ہمیشہ بھینس سے بڑی ہوتی ہے۔
انسان کی جمائی کا اوسط دورانیہ سات سیکنڈ‘ ہاتھی کی جمائی کا اوسط دورانیہ چھ سیکنڈ‘ اونٹ کی جمائی کا دورانیہ تقریباً سوا پانچ سیکنڈ اور چمپینزی کی جمائی کا اوسط دورانیہ پانچ سیکنڈ ہوتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی درجہ بندی بھی اسی طرح کی جا سکتی ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو جانچنے کا یہ فارمولا جو امریکی ماہرین نے دیا ہے ہر شعبے میں استعمال ہو سکتا ہے۔ بڑے بڑے اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے ہاں ملازمین کو بھرتی کرنے کے لئے تعلیم اور حلیے کے ساتھ ساتھ ان کے جمائی لینے کا دورانیہ بھی سامنے رکھیں۔ اس مقصد کے لئے انٹرویو پینل کے پاس ایک سٹاپ واچ بھی ہو جو ممبر کی جمائی کا دورانیہ نوٹ کرنے کے لئے استعمال کی جائے۔ جس کی جمائی کا دورانیہ سب سے طویل ہو اسے فوراً نوکری دے دی جائے۔ یہی پیمانہ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ ‘ وفاقی وزرائ‘ صوبائی وزرائ‘ مشیروں‘ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی سلیکشن کے لئے بھی استعمال کیا جائے۔ اب تک تو ہمارے ہاں ایسے چنا¶ زیادہ کھا کر زیادہ ڈکارنے پر ہوتے رہے ہیں۔جو جتنا زیادہ کھا کر جتنا زیادہ ڈکارتا ہے اس کو اتنا ہی بڑا عہدہ تفویض کیا جاتا ہے۔ جہاں تک چھینکنے کا تعلق ہے تو ہم بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ یہ صحت کیلئے ایک اچھا عمل ہے۔ مذہب بھی اس عمل کو صحت کے لئے اچھا گردانتا ہے کیونکہ یہ عمل جسم پر حملہ آور ہونے والے جراثیم کو فوراً نکال باہر کرنے کا کام کرتا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہمارے سیاستدان چھینکنے کی دوائی لینے بھی بیرون ممالک چلے جاتے ہیں جبکہ انہیں ووٹ دینے والے عوام ادھر ہی چھینک کھانس کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ابھی تک ماہرین نے چھینکنے کو ذہانت سے نہیں جوڑا لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ چھینکنے کا بھی دماغ پر اچھا اثر مرتب ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو چھینک کر دیکھ لیں۔
ماہرین کو چاہئے کہ خراٹوں اور سمجھ بوجھ کے درمیان بھی کوئی تعلق اب ڈھونڈ ہی نکالیں۔ لوگ سننے کے لئے تیار ہیں۔ دیکھا جائے توخراٹے دماغ پر اچھے اثرات مرتب کریں یا نہ کریں لیکن ایک ہی کمرے میں سوئے ہوئے دوسرے شخص کا دماغ خراب کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ خراٹوں کی وجہ سے ہی کئی بیویوں نے شوہروں سے خلع لے لیا اور کئی شوہروں نے اپنی بیویوں کو علیحدہ کر دیا۔ ہمیں چاہئے کہ نئی نئی آنے والی تحقیقات کے پیش نظر اپنا جائزہ لیتے رہا کریں۔ ڈکارنا‘ چھینکنا‘ کھانسنا اور خراٹے لینا کب دماغی صلاحیت سے جوڑ دیا جائے کچھ پتہ نہیں۔ ہمیں اس کے لئے کچھ خاطر جمع ضرور رکھنا چاہئے۔ بہرحال جمائی کا دورانیہ ضرور نوٹ کر لیں۔ ہو سکتا ہے کوئی کہیں پوچھ لے یا پھر ہماری ذہنی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لئے اس کا دورانیہ ماپ لے۔ میری طرح اتنی کوشش ضرور کیجئے گا کہ یہ دورانیہ سات سیکنڈ سے تجاوز کر جائے تاکہ کوئی ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر شک نہ کر سکے۔ ہو سکے تو یہ دورانیہ بیس سیکنڈ تک لے جائیے تاکہ آپ کو ”سپر ہیومن“ سمجھا جا سکے۔