پر اسرار سرگوشیوں، افواہوں اور سازشوں کا موسم ہے۔ جناب نواز شریف ’’جدی‘‘ مزاج ہونے کے سبب کشمکش میں اپنے موقف پر اصرار اور اپنی فتح کی خواہش کی ’’غیرمدبرانہ‘‘ نوشتوں کی ناکامی کے ذریعے خود کو حسب مزاج و افتاد طبع اقتدار سے محروم کر چکے ہیں۔ اس پر ماشاء اللہ الحمد للہ یا انا للہ پڑھایا جائے؟ سمجھ نہیں آ رہی۔ اب ان سے انکی مسلم لیگی صدارت اور قیادت کو چھین لینے یا نرم الفاظ میں واپس لیکر جناب شہباز شریف کو مسند صدارت مسلم لیگ اور اقتدار فیصلہ سازی میں قیادت کا ہمہ گیر کردار دینے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ یاد ماضی کے طور پر ذکر ہے کہ شریف خاندان کے جدہ چلے جانے کے بعد جناب مجید نظامی خاموشی سے جدہ جا کر جناب نواز شریف کو آمادہ کرتے رہے کہ وہ پارٹی صدارت اور سیاسی قیادت سے رضاکارانہ طور پر فارغ ہو کر یہ معاملات نازک ڈیمیج کنٹرول کی صلاحیت سے فطری طور پر مالا مال شہباز شریف (پیدائش 23 ستمبر 1950 کچھ لبرا مگر ورگو اثرات سے بھی مکمل مزین) کو دے دیں کہ وہ تمام مشکلات کو عبور کر لیں گے۔ جب جنوری 2003ء میں مجھے شاہ عبداللہ کی طرف سے ریاض میں منعقد عطائے دانش کانفرنس میں شرکت کا بلاوا آیا تو سیانے جناب شہباز شریف سے زندگی میں پہلی بار ساڑھے تین گھنٹے کی مسلسل بات چیت سرور پیلس جدہ میں کی تھی ان سے طویل ترین گفتگو کے بعد واپس آ کر طویل غورو فکر اور کئی بار گوشہ تنہائی میں گم ہو کر اور بہت ہی سوچ سمجھ کر جناب شہباز شریف کو جناب نواز شریف کا متبادل سمجھ کر مسلسل کالم لکھے۔ یوں شہباز شریف جنرل مشرف عہد میں کھل کر متبادل کے طور پر زیر بحث آ گئے تھے۔ جب میں نے یہ کاوش کی تو مجھے ہرگز علم نہ تھا کہ جناب مجید نظامی یہی کام خاموشی اور تدبر و فراست سے کرتے رہے ہیں مگر میں نے تو ڈھول پیٹ پیٹ کر کالم لکھے اس پر میں ناقابل معافی ٹھہرا جبکہ جناب شہباز شریف نے مجھ فقیر و قلند کے ساتھ حسن سلوک کیا وہ میرے جیسے سادہ لوح منکرین و مدبرین کے لئے چودہ طبق روشن کرنے والا مگر مایوس کن اور تلخ ترین تجربہ ہے۔ لہٰذا وہ سیاسی احباب جو آجکل جناب نواز شریف کو پارٹی صدارت چھوڑ دینے اور جناب شہباز شریف کو صدر مسلم لیگ اور قائد سیاست بنوانے پر کمر بستہ ہیں انہیں مشورہ ہے کہ ذرا ٹھنڈا کر کے کھائیں۔ گرم گرم کھانے سے ہونٹ، زبان اور منہ جل جائے گا ورنہ خود شہباز شریف انشاء اللہ وہ کچھ آپ سے کر دیں گے کہ آپ توبہ توبہ پکاریں گے۔ میں نے مگر اس کو داغ دل نہیں بنایا یہ ستم صبر سے سہہ گیا اور جب بھی جناب شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ پر برا وقت آیا ان کے حق میں کالم لکھے۔ میرا سوال جناب نواز شریف اور ان کے سرگرم حواریوں سے ہے کہ جو کام آپ کو جناب مجید نظامی نے خاموشی سے کہا اور جو کام ایک پروفیسر نے لکھ کر بار بار سمجھایا تھا آج پھر آپ کو وہی مرحلہ کیوں در پیش بنا؟ لیگی سیاسی دنگل میاں نواز شریف کو صدارت چھوڑ دینے اور جناب شہباز کو آگے بڑھا کر کیوں صدر بنوانے میں مصروف ہے؟ جناب شہباز شریف سے گزارش ہے زیادہ جلدی نہ کریں آپ کامیاب و کامران بھی ہو سکتے ہیں مگر بے صبرے نہ ہوں۔ درمیان میں اکتوبر 28، 29، 30 اور پھر نومبر و دسمبر بھی تو ہے۔ جناب ذرا رک جائیے۔ ابھی موسم گل یقینی نہیں صرف امکانی ہے۔ درمیان میں اب مریم نواز شریف موجود ہے وہ سکارپیو (تاریخ پیدائش 28 اکتوبر 1973) یقینا اسے وہ سب کچھ کرنا ہو گا جو کچھ بے نظیر بھٹو نے کیا تھا ابھی تو مرکز میں شاہد خاقان کی وزارت عظمیٰ کی چھتری اور پنجاب میں شہباز شریف کی شفقت موجود ہے۔ کیا وہ ان نعمتوں سے سچ مچ محروم ہو کر مطلوبہ جدوجہد کر سکیں گی؟ جیسے بے نظیر بھٹو نے کی تھی یا رضیہ سلطانہ نے کی تھی یا رانی جھانسی نے کی تھی۔ سکارپیو دو ٹوک موقف اپناتا ہے اور کھل کر چیلنج کرتا ہے۔ لہٰذا مستقبل کچھ روشن نہیں جبکہ دو ٹوک، بے لچک، بے رحم و مشن بننے کی صلاحیتوں سے مالا مال مگر اسے تنہا ہونے کے مواقع بھی اکثر افلاک سے ملتے ہیں۔ یہ نصیحت بغیر فیس کے مریم صاحبہ کے لئے ہے کہ جب سب پتے ہوا دیتے جائیں گے میں آپ محروم اقتدار ہوں گی تو سچ مچ ہو جائیگا۔ کوئی غمخوار غم گسار ہرگز نہ ہو گا۔
زیر بحث ماحول میں قومی حکومت یا ٹیکنو کریٹ حکومت کے امکانات موجود ہیں۔ 18، 19، 20 اکتوبر جو کچھ جناب نواز شریف اور انکی بیٹی و داماد کو دے گیا وہ دلخراش ہے۔ دیکھئے 28 اکتوبر جب زمل جگہ تبدیل کرے گا اب کونسا نیا تمغہ ملتا ہے۔ 28، 29، 30 اکتوبر کے دن غیر متوقع واقعات یا نتائج کو بھی سامنے لا سکتے ہیں۔ نومبر نومبر و دسمبر مزید بے یقینی کے ماحول میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ علما و دانش ور نجوم و فلکیات تصور کرتے ہیں کہ نومبر میں تو تبدیلی لب بام نظر آئے گی۔ نئی حکومت تو موجود ہوگی۔ مگر ہم تجزیئے اور ویرانی سے درمیان میں جناب شاہد خاقان عباسی سے واثق امید کر رہے ہیں کہ وہ زمینی تلخ حقیقتوں میں مزید مطلوب چند قدم تیزی سے اگر اٹھا دیں تو ان کی وساطت سے نومبر و دسمبر تو مسلم لیگ ن کو خیر سے میسر ہو گا ہی اور شائد مارچ کے سینٹ انتخابات کی نعمت عظیم بھی میسر آ جائے۔ مگر یہ نعمت عظیم مسلم لیگ ن کو جناب نواز شریف اور جناب شہباز شریف کو مفت ہرگز نہیں ملنے والی۔ اسکی کچھ قیمت فوراً ادا کیا جانا ضروری ہے۔ اور وہ ہے قیمت جناب نواز شریف اور محترمہ مریم کے جنگی عقابوں کو کابینہ سے مشاورت سے حکومتی اداروں سے فوراً فارغ کر کے ایسے افراد کو سامنے لانا جو ریاست، ریاستی اداروں اور عدلیہ کشمکش کا پس منظر ہرگز نہ رکھتے ہوں۔ کیا جناب نواز شریف مسلم لیگ (ن) اور خود پر رحم کرتے ہوئے ان ذاتی مداحین و مددگاران کو محروم اقتدار ہونے دے سکتے ہیں؟ حضور، جناب شاہد خاقان عباسی کو مکمل اور آزاد وزیراعظم کے طور پر فوراً قبول کیجئے جناب نے خود بنایا ہے تو انکی ذات سے وابستہ میسر نعمتوں کا ممکنہ آسان حصول تو مسلم لیگ (ن) کو حاصل کرنے دیجئے۔ اگر یہ کڑوا گھونٹ جناب نواز شریف نے زہر کی بجائے تریاق سمجھ کر پی لیا تو سمجھئے سینٹ انتخابات آپ کی جھولی میں ورنہ نہ دسمبر اور نہ ہی شریف برادران کا مارچ میں سینٹ تک رسائی ممکن ہوگی ۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ موجودہ منصبوں سے علیحدہ کئے جانے کے بعد جان نثاران نواز شریف کب تک نواز شریف کی جنگ لڑ سکتے ہیں؟ شائد کبھی بھی نہیں کہ یہ سب دودھ پینے اور چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔