مسلم لیگ ن کے انتخابات اور قائداعظمؒ کی تصویر
مسلم لیگ ن کے جماعتی انتخابات میں بلا مقابلہ صدر اور دیگر مرکزی اور صوبائی عہدیداران کے بلا مقابلہ منتخب ہونے پر متعدد اخبارات میں ضلع کے اشتہارات مبارکبادی شائع ہوئے ہیں ۔ جس میں وزیراعظم پاکستان اور صدر پاکستان مسلم لیگ ن اور وزیراعلیٰ پنجاب کو صوبائی صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی گئی اور مسلم لیگ کے مرکزی صدر اور صوبائی صدر کی بڑی تصاویر شائع ہوئی ہیں۔ اشتہارات کی دیگر تصاویر میں مقامی طور پر مسلم لیگی ایم این اے اور ایم پی اے اور چیئرمین یونین کونسل کی تصاویر بھی شائع ہوئی ہیں۔ کارکنان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے منتخب عہدیداران کی تصاویر کے ساتھ اپنی تصاویر بھی دیں لیکن اس سارے فسانے میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اس تصویر کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جسے ان تمام تصاویر کے اوپر ایک کونے میں مختصر تصویر سجا کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گئے جس پر بہت سے لوگوں کو دکھ ہوا ہے۔ مسلم لیگ ہی واحد وہ جماعت ہے جو دراصل قائداعظم کی جماعت ہے۔ یہ الگ بات ہے ایک مسلم لیگ سے کئی مسلم لیگیں جنم لے چکی ہیں۔ کونسی اصلی ہے اور کونسی غیر اصلی لیکن اس طرح بابائے قوم اور بانی پاکستان مسلم لیگ کو نظرانداز کر کے مرکزی بلا مقابلہ منتخب صدر اور صوبائی صدر بلا مقابلہ کو ہی بانی پاکستان مسلم لیگ ثابت کرنا مقصود ہے تو پھر مسلم لیگ کی اپنی مرضی۔
قوم کو مبارک ہو کہ اس کے محبوب وزیراعظم انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کر کے آئندہ پانچ سال کیلئے اپنی ہر دلعزیز جماعت کے صدر منتخب ہو گئے ہیں جن میں الیکشن کے تمام تقاضے پورے کئے گئے جبکہ ان کے مقابلے میں پرنس عبدالقادر بلوچ نے کاغذات نامزدگی داخل کئے لیکن اس وجہ سے مسترد ہو گئے کہ ان کا نام ووٹر لسٹ میں شامل ہی نہیں تھا۔ ورنہ” زور دار مقابلہ“ کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس سے یہ ثابت بھی ہو گیا کہ ملک میں بادشاہت نہیں بلکہ ”عین جمہوریت“ ہے۔ تحقیقات جاری ہیں کہ مخالف امیدوار کا نام ووٹرلسٹ سے کیوں کاٹ دیا گیا اور انکوائری کمیٹی اس بات کا تعین کرے گی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ بحرحال جمہوریت کی اس فتح کو ایک طویل عرصہ تک یاد رکھا جائے گا۔ لوگ اگرچہ ۱۹۷۷ءکے عام انتخابات سے تشبیہ دے رہے ہیں جب ذوالفقار علی بھٹو اپنے تمام صوبائی وزراءاعلیٰ سے بلا مقابلہ منتخب ہو گئے تھے لیکن ناقدین کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں میں انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف نے جماعتی انتخابات کاکلچر بدلنے کی کوشش کی تو مخالفین اور میڈیا خاص طور پر جماعت میں شامل روایتی سیاستدانوں نے وہ سبق سکھایا کہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ رہی سہی کسر جسٹس وجیح الدین نے پوری کر دی اور پھر عمران خان پرانے سیاسی کلچر پر ہی آمادہ نظر آئے۔ دراصل مسلم لیگ کے حالیہ جماعتی انتخابات میں جس لطیفے نے جنم لیا ہے وہ مسلم لیگ ن کے مخالفین مزے لے کر بیان کرتے ہیں جن میں صدارتی امیدواروں کی بڑی تعداد میں حصہ لینے کا ذکر ہے۔جس میں حسین نواز کے والد ‘ میاں شہباز کے بھائی‘ کیپٹن صفدر کے سسر اور حمزہ شہباز کے تایا کے علاوہ مریم نواز کے والد کے درمیان سخت مقابلے کے نتیجہ میں مریم نواز کے والد الیکشن جیت کر بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے۔ میں نے پڑھا ہے قیوم نظامی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو پیپلزپارٹی یونین کونسل اور وارڈ کی سطح پر منظم کرنے اور جمہوری انداز میں منتخب عہدیداروں کے ذریعے چلانے کی تجویز دی۔ محترمہ نے یہ تجویز اس بنا پر رد کردی کہ پھر میری گرفت پارٹی پر نہیں رہے گی اور پھر چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی خاطر انہوں نے اپنی بیمار ماں کو چیئرپرسن کے نمائشی عہدے سے الگ کر دیا بعد ازاں یہی کارنامہ میاں نوازشریف نے محمد خاں جونیجو کی قبر کی مٹی خشک ہونے سے قبل انجام دیا۔ مسلم لیگ کے انتخابات کے بعد قابل ذکر وزیراعظم کی تقریر تھی جس میں انہوں نے زمینی حقائق سے بے خبر وہ کچھ بیان کیا جو عام آدمی کیلئے حیران کن تھا۔ بجلی کے بل اور بازار سے سودا سلف لینے والے جانتے ہیں کہ وہ کس طرح کے حقائق بیان کر رہے ہیں۔ عالمی ادارے نے پاکستان میں چار کروڑ لوگوں کے بھوکا سونے کی خبر دی ہے جبکہ عالمی منڈی میں تیل ایک سو پچاس ڈالر سے صرف تیس ڈالر فی بیرل کی سطح پر آ گیا ہے۔ اس طرح قومی خزانے کو سالانہ پانچ ارب ڈالر کی بچت ہوئی مگر مہنگائی جوں کی توں اور نہ ہی خسارے پر قابو پایا جا سکا۔ موٹروے کا ایک حصہ گروی رکھ کر ایک ارب ڈالر کا مزید قرضہ لیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بنک اور دیگر مالیاتی اداروں سے لیا گیا قرضہ حاصل کرنے سے ذخائر اس وقت چوبیس ارب ڈالر تک پہنچ کر بظاہر کامیابی کے نشان تک پہنچ چکے ہیں لیکن یہ چار کروڑ فاقہ کشوں سے بھونڈا مذاق لگتا ہے۔ مسلم لیگ قائد اعظم کے بھی انتخابات ہو چکے ہیں وہ بھی تمام بلامقابلہ منتخب ہو کر ملک و قوم کی خدمت کیلئے کمربستہ ہیں۔ ہمارے سیاسی کلچر میں انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہم میاں نوازشریف کو ترکی کے صدر طیب اردگان کی طرح مرد آہن سمجھتے ہیں تو پھر کم لوگوں کو علم ہو گا کہ وہ گراس روٹ لیول پر منظم اور ایک مضبوط پارٹی کے سربراہ ہیں ان کے سیاسی اثاثہ میں بیرون ملک پانامہ لیکس اور ڈان لیکس نہیں صرف عوام کی خدمت اور ان کی ترقی ہے۔ اب نوازشریف منتخب صدر جماعت ‘منتخب وزیراعظم ہیں وہ عمران خان اور سرل المیڈا کی سٹوری کے مضمرات سے ہرگز خائف نہ ہوں لیکن یہ بات مسلم لیگ ن نہ بھولے کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح کی جماعت کے امین ہیں۔ اپنے پروگراموں‘ اشتہارات میں ان کی تصویر کو موزوں اور مناسب اہمیت ملنی چاہئے۔