اسے حکومت کی حُسن کارکردگی کہا جائے یا کچھ اور کہ اس نے تین سال میں 24 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لئے ہیں۔ اتنی بڑی رقم کہاں خرچ ہوئی ہے اس کی تفصیلات کا 20 کروڑ عوام تو کیا عوام کے منتخب نمائندوں تک کو علم نہیں۔ کسی بھی قسم کا قرضہ لینے سے پہلے اس کے مقاصد کو آشکار نہیں کیا جاتا۔ بظاہر کہا جاتا ہے کہ ادائیگیوں کے عدم توازن کو دور کرنا ہے، داخلی قرضوں کو گھٹانا ہے اور پہلے سے لئے گئے قرضوں کی مع سود ادائیگی کرنی ہے گویا قرضوں کے حوالے سے ترقی کا کہیں ذکر نہیں۔ حیران کن بات یہ ہے عالمی اداروں اور خود حکومتی اداروں کی طرف سے ترقی کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ سٹیٹ بنک تو نیب اور ایف آئی اے کی طرح اپنا ادارہ ہے مذکورہ اداروں میں کس کی مجال کہ حکومت کے ناقد کا کردار ادا کرے۔ سٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ 2015-16 نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کا سفر کامیابی سے جاری ہے۔ تین سال سے ایک ہی بات کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے ہیں۔ 20 کروڑ عوام کیلئے یہ ذخائر کس کام کے؟ مہنگائی کی شرح گر کر 2.9 فیصد تک آ گئی ہے۔ کوئی عقل کا اندھا ہی تسلیم کرے گا کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے۔ کیا آٹا کا تھیلا سستا ہو گیا ہے؟ کیا ٹرانسپورٹ، ریلوے کے کرائے کم ہو گئے ہیں؟ کیا روٹی سستی ہو گئی ہے؟ کیا ڈاکٹروں، اکیڈمیوں، سکولوں کالجوں، یونیورسٹیوں نے فیسیں کم کر دی ہیں؟ کیا درزیوں، دھوبیوں، حجاموں نے اپنے ریٹ کم کر دئیے ہیں، کیا رشوت کی رقم بھی کم ہو گئی ہے، کیا پلاٹ اور جائیدادیں سستی ہو گئی ہیں؟ کیا ادویات اور یوٹیلٹی بلز کم ہو گئے ہیں؟ کیا کفن دفن کا سامان سستا ہو گیا ہے؟ کیا حج اور عمرہ سستا ہو گیا ہے؟
بجٹ خسارہ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔ مسلسل چوتھے سال کمی کے بعد بھی بجٹ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد ہے۔ درآمدات اور برآمدات کا فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ جاری مالی سال سال کے پہلے چار ماہ میں یہ فرق 9.3019 ارب ڈالر ہے۔ چار ماہ میں 15.751 ارب ڈالر کا مال منگوایا گیا جبکہ دنیا والوں نے ہم سے 6.432 ارب ڈالر کا مال خریدا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات بھی گھٹنا شروع ہو گئی ہیں۔ ٹریڈ گیپ کو زرمبادلہ کے ذخائر ہی پورا کر سکتے ہیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں نے بزنس کاسٹ بڑھا دی ہے، توانائی کا بحران اپنی جگہ پر قائم ہے۔ حکومت نے تین سالہ ٹریڈ پالیسی کے تحت 2018ء تک برآمدات کا سالانہ ہدف 35 ارب ڈالر مقرر کر رکھا ہے۔ حجم اور ویلیو دونوں طرح سے برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ یہ بات تو عیاں ہو چکی ہے کہ حکمرانوں کو اپنے مفادات عزیز ہیں ساری توجہ اور ساری کوششیں پانامہ لیکس کیس فتح کرنے پر ہیں۔
امریکہ میں ٹرمپ کا دور صدارت شروع ہونے کے بعد تجارت کے حوالے سے ہم پر نئے پہاڑ ٹوٹیں گے۔ پاکستان کی 17 فیصد برآمدی آمدنی کا انحصار امریکی منڈی پر ہے جبکہ ترسیلات میں 13 فیصد حصہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کا ہے۔ ٹرمپ نے نئے امیگریشن کنٹرولز متعارف کرانے ہیں۔ تجارت بھی تحفظات کی زد میں آئے گی اور ہم جیسے ہی نشانہ بنیں گے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ہم امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والے ایک ارب ڈالر سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔
انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی ریشو 2006-07 میں 23.5 فیصد تھی جو 2010-11 میں گر کر 13 فیصد اور 2015-16 میں 15 فیصد ہے ایک سال میں 30 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا نقصان ہوا ہے۔ 2006-07 میں بیرونی سرمایہ کاری 5 ارب ڈالر سے زیادہ تھی اور بمشکل ایک ارب ڈالر ہے ساڑھے تین سال میں وزیراعظم کے بیرونی دورے بھی کچھ کام نہ دکھا سکے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی شاباش کے باوجود بیرونی سرمایہ کار پاکستان کے جمہوری دور میں سرمایہ کاری سے کیوں ہچکچا رہے ہیں یہ حیران کن بات ہے کہ ایف بی آر کے کرتا دھرتا بھی ٹیکس دہندہ اور ریٹرن فائلر کا فرق نہیں جانتے۔وہ چاہتے ہیں انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی اونچی شرح برقرار رہے خواہ ٹیکس کی بنیاد جوں کی توں رہے حالانکہ دنیابھر میں ٹیکسوں کی شرح کم اور بنیاد وسیع تر ہے۔ ملک کی 45 لاکھ کی افرادی قوت میں 7.5 فیصد آمدنی چار لاکھ روپے سالانہ ہے جو قابل ٹیکس ہے۔ لیکن 2015ء میں صرف 10 لاکھ 64 ہزار 108 لوگوں نے ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے، ان میں سے 90 فیصد نے دس ہزار روپے سے کم انکم ٹیکس ادا کیا۔ جو ریٹرن فائل کرتے ہیں وہ بھی آدھا سچ بولتے ہیں۔ بڑے بڑے حکمران اپنی اصلیت چھپاتے ہیں تو عام شہری پورا سچ کیسے بول سکتا ہے؟ سچ بولنے والوں کے لئے سوالات کا پنڈورا بکس کھل جاتا ہے۔ سیلز ٹیکس کا 82 فیصد ٹاپ کی 100 کمپنیوں سے جمع ہوتا ہے۔ سیونگز پر ٹیکس لگانے سے حکومت کے ریونیو میں اضافہ نہیں ہوتا۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جہاں بینکوں سے لین دین اور کیش نکلوانے پر ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہو۔ ہمارے ڈونرز اور ساہوکاروں آئی ایم ایف ورلڈ بنک اے ڈی بی وغیرہ نے ہمارے ٹیکس سسٹم کے ظالمانہ پہلو پر سے پردہ نہیں ہٹایا۔ حکومتی آمدنی کا 53 فیصد پیسہ قرضوں پر سود کی ادائیگی، دفاع اور سرکاری ملازموں کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے۔ ایف بی آر کے دعوئوں کے باوجود ٹیکس فائلرز کی تعداد میں صرف 10,745 کا اضافہ ہوا۔ انسانی ترقی کے حوالے سے دنیا کے 187 ملکوں میں ہمارا 146 واں نمبر ہے۔ دانش سکولوں کے فیض یافتگان کون سے بچے ہیں ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ وزیراعظم کی واضح ہدایت اور بجلی کی طلب میں نمایاں کمی کے باوجود لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث تھرمل اور آئی پی پیز کی پیداوار میں اضافہ نہ ہونے کے باعث ملکی زرعی پیداوار کو دائو پر لگا کر ڈیموں سے پانی کے اخراج میں اضافہ کر کے بجلی کی شاٹ فال میں کمی کی کوشش کی جارہی ہے۔ سٹیٹ بنک رپورٹ کے نزدیک عارضی اقدامات کے ذریعے ٹیکس کا نظام معیشت میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔ سماجی شعبے پر زیادہ رقم خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ پالیسی ریٹ اس وقت تاریخ کی پست ترین سطح 5.75 فیصد پر ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38