یہ رگوں میں دوڑتا لہو منجمد کردینے والی نومبر کی ایک یخ بستہ رات تھی، مہمند ایجنسی کی تحصیل بے زائی کے پشتون قبائل کسی انہونے واقعے سے بے خبر گہری نیند اوربے فکر سورہے تھے، بے فکری کی یہ کیفیت کچھ ایسے ہی نہ تھی، بلکہ اس کی وجہ اِس تحصیل کی مغربی چوٹیوں پر پاک فوج کی چیک پوسٹوں کی موجودگی تھی، جہاں حوصلہ مند ماو¿ں کے دلیر بیٹے قوم کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت چوکس رہتے تھے۔ نومبر کے چوتھے ہفتے کی اُس شب بھی ایسا ہی ماحول تھا۔ مقامی وقت کے مطابق صبح کے دو بجے تھے ، چیک پوسٹ کے کمانڈر میجر مجاہد میرانی اپنے جوانوں کی رات کی ڈیوٹی لگاکر اپنے خیمے میں جاچکے تھے، نائب کمانڈر کیپٹن عثمان علی نے خیمے کے پردے کو ذرا سا سرکایا ، افق پر جھلماتے ستاروں اور اپنے مستعد جوانوں پر ایک نظر ڈالی اور کمبل اوڑھ لیا۔ ابھی کچھ وقت ہی گزرا ہوگا کہ اچانک مغرب سے پھڑپھڑاہٹ کی آواز یں آنا شروع ہوگئیں، جس سے سونے والے بھی ہڑبڑاکر اُٹھ بیٹھے، یہ آوازیں مغرب سے آنے والے ہیلی کاپٹروں اور جنگی طیاروں کی تھیں ، یہ نیٹو کے دو اپاچی ہیلی کاپٹر تھے، دو ایف پندرہ فائٹر جیٹ تھے، ایک اے سی ون تھرٹی تھا اور اُن کی نگرانی کیلئے ایک ایم سی ٹویلو ڈبلیو لبرٹی طیارہ تھا۔ ان طیاروں سے بغیر کسی وارننگ کے بمباری شروع ہوگئی، جس کے نتیجے میں میجر مجاہد ، کیپٹن عثمان اور بائیس جوان شہید جبکہ تیرہ جوان شدید زخمی ہوگئے۔ نیٹو افواج کا یہ حملہ کوئی عام حملہ نہ تھا، بلکہ امریکہ کی جانب سے یہ انتہائی بزدلانہ شب خون کھلی بدمعاشی تھی، جس نے ملک کے اندر امریکہ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا دی، سلالہ کی چوٹی پر پاک فوج کے جوانوں پر کیا جانے والا یہ حملہ دراصل پاکستان کے خلاف کھلی جنگ کے مترادف تھا۔
پاکستان کے اندر امریکہ کے خلاف نفرت کا یہ لاواکچھ بے جا بھی نہ تھا، اس سے قبل 2011ءمیں ہی دو مئی کا دن بھی پاکستانی تاریخ کا ایک اہم ترین دِن تھا۔ جب آدھی رات کو صرف پاکستان میں ہی بھونچال نہیں آیا تھا بلکہ پوری دنیا میںایک عجیب اور نامانوس سی کیفیت پیدا ہوگئی، اُس شب بھی جس انداز میں امریکہ نے پاکستان کے خوبصورت شہر ایبٹ آباد میں یکطرفہ کارروائی کرکے اُس کے حسن کو گہنانے کی کوشش کی تھی وہ کسی طور بھی اُس دوستی کے شایان شان نہ تھی ، جس کاگزشتہ چھ دہائیوں سے ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا تھا۔ اِن دونوں واقعات سے جہاں پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی، وہیں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات اور اعتماد کو بھی شدید ٹھیس پہنچی۔ پاکستان میں پہلے پہل تو ہر کوئی دانتوں میں انگلیاں دبا کر بیٹھ گیا، لیکن یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں تھا، یہی وجہ تھی کہ ملک کے اندر امریکہ کے خلاف نفرت کا لاوااُبل پڑا تھا، جو کچھ بے جا بھی نہ تھا، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کیا جانے والے آپریشن ہی کیا کم تھا کہ امریکہ نے سلالہ پر حملہ کرکے ایک مرتبہ پھر پاکستان اور اس کے سیکیورٹی اداروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی، ان حملوں کے خلاف پاکستانی قیادت کی جانب سے بھی سخت ردعمل دیکھنے میں آیا، پاک امریکہ عسکری تعلقات تو متاثر ہوئے ہی لیکن اس کے ساتھ ہی پاک امریکہ سول تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہوگئے ۔
یقینا امریکہ کی جانب سے یہ دونوں کارروائیاں قابل مذمت تھیں، جسے دنیا کا کوئی آزاد اور خودمختار ملک قبول یا برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ایبٹ آباد واقعہ پر تو پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد بھی پاس کی تھی، جس کے ایک نکتے میں پاکستانی حدود کے اندر ڈرون حملوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر حملے روکنے کا مطالبہ کیاگیا۔پاکستانی حدود کے اندر یہ حملے یقینا کسی بھی صورت میںقابل قبول یا قابل برداشت نہیں ہوسکتے تھے۔ یہ ڈرون حملے یقینا اخلاقیات، بین الاقوامی قوانین اور جنگی حکمت عملی کے ادنیٰ معیارات پر بھی پورے نہیں اترتے تھے۔ڈرون حملے نہ رُکنے کی صورت میں پارلیمنٹ نے نیٹو اور ایساف فورسز کو دی گئی راہداری کی سہولت واپس لینے کیلئے اقدامات کرنے کو بھی کہاتھا ،اُسی قرارداد میں خطے اور دنیا کی طاقتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیا گیا کہ اِس طرح کے واقعات کو دہرانا پاکستان اور پاکستانی عوام کیلئے کسی بھی صورت قابل قبول اور قابل برداشت نہ ہوگا۔ آخر اس طرح کے واقعات قابل قبول ہوتے بھی تو بھلا کیسے؟ کیا یہاں انسان نہیں بلکہ محض بھیڑ بکریاںبستی ہیں؟کیا ہم طفیلی ریاست تھے کہ کوئی ہمارے ساتھ جو مرضی سلوک کرتا پھرے اور ہم خاموشی سے ہر ظلم سہہ جاتے؟ یقینا ایسانہیں تھا!اسی لیے طے پایا کہ ایک غیرت مند قوم ہونے کے ناطے ایسا واقعہ دوبارہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
قارئین کرام!! سلالہ واقعے کے آٹھ ماہ بعد امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی جانب سے معافی مانگنے پر اگرچہ نیٹو سپلائی تو بحال ہوگئی، لیکن پاک امریکہ تعلقات ، بالخصوص پاک امریکہ عسکری تعلقات کو معمول پر آنے میں کافی وقت لگ گیا۔ان واقعات کے بعد تین سال کے دوران سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے امریکہ کا کوئی دورہ کیا اور نہ ہی ان کے بعد آنے والے جنرل راحیل شریف امریکہ کے دورہ پر گئے۔ایبٹ آباد اور سلالہ واقعات کی تلخ یادیں محو ہونے کے تین سال بعد اب جنرل راحیل شریف امریکہ گئے ہیں تو اُن کی خوب آو¿ بھگت ہورہی ہے، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایبٹ آباد اور سلالہ واقعات کے بعد پارلیمنٹ نے جو قرارداد منظور کی تھی، اس پر عمل درامد نہیں کیا جاسکا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بھی محض امریکہ پر انحصار کرنے کی بجائے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا، نتیجہ روسی وزیر دفاع کی پاکستان آمد اور دفاعی معاہدوں کی صورت میں نکلا ہے، پاکستان چین کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید بڑھا رہا ہے، جو یقینا خوش آئند ہے۔ پاکستان نے اکیلے امریکہ پر انحصار اور اعتبار کرکے بہت دیکھ لیا، پاک امریکہ سول اور عسکری تعلقات معمول پر آنے کے باوجود پاکستانی حدود کے اندر ڈرون حملے رُکے نہ پاکستان کی مغربی سرحدیں محفوظ ہوسکیں،بلکہ واہگہ بارڈر پر حملوں جیسے واقعات نے پھر سے اُس قرارداد کی یاد دلادی، جس میں ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ یہ قرارداد اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر ، موجودہ وزیر داخلہ اور قومی سلامتی پالیسی کے روح رواں چودھری نثار علی خان نے بڑے چاو¿ سے پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور کرائی تھی۔وزیر داخلہ تھوڑا سا وقت نکال کر اس قرارداد کو جھاڑ ہی لیں، اُس قرارداد پر بہت سی گرد جم چکی ہے۔