دھوپ کی تمازت کم تھی یا پھر نیکی کا سفر کہ موسم کسی نرم خُو مہربان۔ابریشم کی طرح ملائم ۔سکون کی کلیاں تخلیق کر رہا تھا۔ ’’دارالکفالہ‘‘ پہنچنے میں چند منٹ لگے۔۔ ’’انکل انعام الہٰی اثر‘‘ اور انکل یعقوب قریشی سمیت پورے ’’دارلکفالہ‘‘ کا دورہ کیا۔۔ عمر کے اِس حصہ میں بھی خدمت خلق کا جذبہ ’’انکل انعام الہٰی‘‘ کو دوڑائے جارہا ہے۔۔ انتہائی لگن۔شوق۔عقیدت اِن کی ذات میں گُھل مل گئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ تا دیر سلامت ۔صحت مند رکھے۔۔ وہ یونہی مخلوق خدا کے دامن دکھوں سے پاک کرتے اور خدمتگاری کرنے والوں کے باغات اُگاتے رہیں۔ آمین۔ ۔ اس وقت ادارے میں 9عورتیں او ر 15مرد مقیم ہیں۔۔صنفی مزاج۔۔ برداشت کی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے مردوں کی زیادہ تعداد پرحیرت سی محسوس ہوئی۔۔ وزٹ کے بعد عورتوں سے گپ شپ کا سلسلہ چل پڑا ۔۔ باہم بات چیت بڑی ظالم چیز ہے جو بحرانوں کو بھی ٹال دیتی ہے اور بسا اوقات لڑائی ۔جدائی کا بیج بھی بن جاتی ہے۔ ۔ کچھ ایسا ہی اُس وقت دیکھا۔۔آب بیتی سناتے ہوئے دو عورتیں جھگڑ پڑیں۔۔ دوران تو تکار ایک نے دوسری کو کہہ دیا کہ تو ’’فلاں وجہ ‘‘ سے اِدھر سہار ا لینے پر مجبور ہوئی۔۔ اِس پر تُرت سے دوسری نے بھی ’’فلاں فلاں‘‘ وجوہات گنوا ڈالیں۔۔جھگڑے کی طوالت نے یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ تم سب لوگ ہی کسی نہ کسی وجہ سے یہاں رہ رہے ہو۔ اس لیے لڑائی ختم کرو۔اب محبت سے ۔۔دھیرے سے اکٹھے رہنے اور دوسروں کو برداشت کرنے کا فن سکیھو۔۔تب کچھ سکون ہوا۔ ۔لمحہ حاضر کا انسان نا پائیدار رشتوں کی دنیا کا باسی ہے۔۔ ہر چوتھا شخص غم ۔درد کی پوٹلی بغل میں دابے منہ چُھپانے کی جگہیں ڈھونڈتا نظر آتا ہے۔۔نہ خونی رشتوں کی تقدیس ہے نہ جوان آنکھوں میں بوڑھے ماں باپ کے لیے عزت ۔حیا کی رمق ۔۔ ہمارا معاشرہ اخلاقی روایات سے تہی دامن ہو کر معاشرتی ادب۔آداب ۔اقدار کے جنازہ کو کب کا کندھا دے چُکا ہے۔۔ اسی لیے تو بے سہارا لوگوں کو پناہ دینے والے اداروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔۔یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ایک باپ تن تنہا’’ 17بچوں‘‘ کو بھی پال پوس لیتا ہے۔۔(چاہے امیر ہو یا غریب) مگر ’’17بچے‘‘ مِل کر بھی ایک باپ یا ماں کو نہیں سنبھال سکتے۔۔ خونی رشتے جتنے حسین ۔دلفریب ہیں ۔۔اُن سے زیادہ حقائق کی تلخ کڑواہٹ سے بھرے ہوئے ہیں ۔ وہاں موجود ہر بندے ۔بندی کے پاس کوئی نہ کوئی غمزدہ کہانی تھی۔ کوئی جوان اولاد کے ناروا سلوک ۔بد مزاجی ۔مار پیٹ کے شاکی تھے تو کچھ غربت کے ہاتھوں گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دئے گئے۔ ایک عورت حالات سے تنگ موت کی دعا ئیں کرتی رہی۔ بے کسوں کی تو زندگی بھی ’’عمر خضر‘‘ مانند ہوتی ہے۔ لا وارث لوگوں کی زندگی میں مایوسی کا عنصر قدرے زیادہ ہوتا ہے۔ مانا کہ ہر شخص میں مثبت۔منفی ہر دو طرح کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ معروف راستوں سے ہٹ کر نا مانوس راہوں پر چلنامنفی رحجان ہے۔منفی قوتوں کے سحر نے پہلے سیاسی و مذہبی اقدار کو نگلا۔اب معاشرتی روایات کو کُچلنے میں کامیاب ٹھہری۔کسی بھی شعبہ حیات میں جھانک کر دیکھ لیں۔ انتہا پسندانہ سوچ انتہائی انا کی مسخ شدہ شکل میں نظر آئے گی۔عصرِ نو کی سوسائٹی کا ہر بندہ ۔بندی اپنی خواہشات کا مزار سجائے نظر آتا ہے۔تحریر میں ہم مسلمان لکھے جاتے ہیں مگر اعمال میں ’’کافر ‘‘ ہم سے زیادہ اسلامی فلاحی اصولوں پر کاربند نظر آئیں گے۔مسلمان تو ایک درخت کا پتا تک نہیں توڑ سکتا۔ یہاں نام کے مسلمان تو مخالفوں کا پانی تک بند کر دیتے ہیں۔ تیار کھڑی فصلیں نذر آتش کر دی جاتی ہیں۔باپ بیٹے کا۔بیٹا باپ کا دشمن ہے۔ جو ہم ہیں ویسی ہی ہماری پود۔ تو پھر والدین اپنی اولاد سے اتنے نالاں کیوں؟ لوگوں کی سب سے بڑی بیماری بھوک۔ جہالت ہے۔اُوپر سے معاشی وسائل کی امتیازی۔غیر مساوی تقسیم معاشرے میں نفاق کا بیج بو رہی ہے۔ مہنگائی۔روزگار کی کمی۔ناکافی وسائل کی بنا پر دوائی تک نہ خرید سکنے کی سکڑتی ہوئی سکت خاندانی نظام کو تقسیم کر رہی ہے۔ چڑ چڑاپن عام ہے۔ پیٹ کو مطمئن رکھنے کے لیے درکار روٹی کی تسلی بخش تعداد کی عدم دستیابی نے بھی رشتوں میں دراڑیں پیدا کیں۔گھروں میں ایک ہی وقت میں لگنے والے مشترکہ دستر خوان کی صدیوں پُرانی روایت بھی نابود ہو رہی ہے۔۔اِ س پر طرہ یہ کہ جہالت کی وجہ سے غریب اور مڈل کلاس کی آدھی عمر یں مقدمہ بازی میں گُھل جاتی ہیں۔ کھانے کو بے شک روٹی نہ ملے مگر نام نہاد غیرت قتل۔چوری۔تفرقہ بازی جیسی خرافات میں کچے مکانوں کو بھی فروخت کر ڈالتے ہیں۔ عدم برداشت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔کمزور ہوتے خاندانی نظام ۔دفن ہوتے معاشرتی رکھ رکھائو کے احیائ۔ مضبوطی کے لیے تحمل۔مروت ۔انکساری کی صفات کو خود کے وجود پر نافذ کر و۔ ایک دوسرے کی شخصی آزادی۔ احترام کو ملحوظ رکھا جائے تو کوئی بھی دوسرے سے شکوہ کناں یا ناراض نہیں ہوگا۔ کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہر شخص کو باعزت روزگار کے مواقع ملیں۔ بروقت انصاف مِلے۔غلط الزامات پر کڑی سزاہو۔غریب کی جورو ۔بیٹی ۔بیٹا کی پشت پناہ حکومت ہو۔۔ مفلس کی مفلسی کا تدارک۔’’ریاست‘‘ کی اولین ترجیح بن جائے تو پھر شاید خانگی جھگڑے بھی رشتوں میں گہری خلیج حائل نہ کر پائیں گے۔۔ معاشی ناانصافی ۔سانحات۔حادثوں کو جنم دیتی اور پروان چڑھاتی ہے۔ اِس موقع پر مجھے حضرت’’ابو بکر صدیق ؓ ‘‘ کی خلیفہ بننے کے بعد پہلی تقریر کے دونکات یاد آرہے ہیں۔ ۱۔ خلیفہ امت ہی کا فرد ہے ۔انہی میں سے منتخب ہوا ہے۔ ۲۔ حکومت معاشرہ کے کمزور لوگوں کی پشت پناہ ہوگی۔ پس تحریر۔چند ہزار کے مجمع سے خطاب میں ’’کالا باغ ڈیم‘‘ کی تعمیر کو چند کروڑ سندھی آبادی کی رضامندی سے مشروط کرنے کا اعلان ’’18کروڑ ‘‘ پاکستانیوں کو دُکھی کر گیا۔ ’’خان صاحب‘‘ ۔بنانا یا نہ بنانا خالصتاً فنی اور پالیسی معاملہ ہے۔پالیسی معاملات کو سیاسی مجمع بازی کا تڑکا نہیں لگانا چاہیے تھا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024