پنجاب کے پانچ دریاﺅں میں سے تین بیچ دیئے گئے اور وہ سوکھ گئے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی انسان کی دل کی تین شریانیں بند ہو جائیں اور وہ دو آدھ کھلی شریانوں کے ساتھ زندہ ہو۔ ایک غیر پنجابی صدر ایوب خاں مرحوم نے سندھ طاس معاہدہ کرکے ہمارے پنجاب کی جڑیں کاٹ دیں اور آج خیبرپختونخواہ اور سندھ کے کچھ سیاستدان کالا باغ ڈیم کی مخالفت محض اس لیے کر رہے ہیں کہ ایک سرسبز پنجاب انہیں گوارہ نہیں۔ وجہ اس غیر فطری نفرت کی کچھ بھی ہو مگر اصل وجہ پنجاب میں آباد دوسرے صوبوں کی اشرافیہ اور بیوروکریسی ہے۔ جن کا یہ اقدام پنجاب کے ماتھے پہ کالک لگا دیتا ہے۔ قارئین! انگریز نے جب برصغیر میں قدم جمانے شروع کیے تو پنجاب کے غیور عوام نے ان سے ٹکر لی اور شدید مزاحمت کی۔ اس مزاحمت کو انگریز بھولا نہیں۔ سب سے پہلے پنجاب کے اس وقت کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خلاف پراپیگنڈہ مہم شروع کی گئی کہ مہاراجہ نے بادشاہی مسجد لاہور کو فتح کرنے کے بعد اصطبل بنا دیا ہے۔ کبھی بادشاہ کی آنکھ کوہدف تنقید بنایا گیا ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ پنجاب کے اندر مسلمان پنجابیوں اور سکھ پنجابوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھینچ دی جائیں۔ انگریز کی اپنی نفرت کا یہ عالم تھا کہ تقسیم ہند کے وقت تقسیم ہند کا سب سے زیادہ نقصان پنجاب کو پہنچا۔ تقسیم ہند کے وقت مغربی پنجاب سے ہجرت کرنے والے سو فیصد جاٹ اور کسان تھے جو جا کر مشرقی پنجاب میں آباد ہوئے جبکہ ہندوستان سے لاکھوں کی تعداد میں آنے والے مہاجرین جن کا تعلق ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے تھا ان کا پہلا مسکن مغربی پنجاب ٹھہرا ،جہاں انہوں نے لاکھوں ایکڑ اراضی کلیم کی اور وہ قیام پاکستان کے دن سے ہی مقامی پنجابی آبادی پر قابضین کی مانند وارد ہوئے۔ اس سے پنجاب کی مقامی عوام کا استحصال ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پنجابی غیر پنجابی کا محتاج ہو گیا۔ تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کے پاس دو ہی آپشن تھے کہ یا وہ پاکستان چلے جائیں یا انڈیا میں رہیں مگر ریڈکلف پلان سازش کے تحت مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو یہ آپشن نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے تقسیم ہند کے وقت انسانی زندگی کا بدترین قتال ہوا۔ جس میں 50لاکھ پنجابی ایک د وسرے کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹ گئے۔ یہ ریڈکلف سازش کی کامیابی تھی کہ پنجابی سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک نہ مٹنے والی لکیر کھینچ دی گئی۔ حتیٰ کہ تقسیم ہند کے بعد بھارت میں مشرقی پنجاب کی سبز ترقی کو بھی حسد کی نظر سے دیکھا گیا اور مشرقی پنجاب کو چندی گڑھ ہریانہ کے مزید صوبے بنا کر تقسیم کر دیا گیا اور آج ایسی ہی للچائی نظریں پنجاب کی تقسیم کے درپے ہیں۔ آج بھی پنجاب غیر پنجابی حکمرانوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہے اور اس نفرت کا اثر ہے کہ پنجاب کو مزید صوبوں میں تقسیم کیے جانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے اقتدار سے لے کر پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ تک پنجاب سیاسی تقسیم اور استحصال کا شکار رہا۔ صرف مشرف دور میں پنجاب کا کسان تھوڑا خوشحال ہوا اور اسے یہ احساس ہو اکہ وہ بھی انسان ہے۔ ایک دن مجھ سے میرے بیٹے عبداللہ وڑائچ نے پوچھا کہ پاپا یہ کسان کیا ہوتا ہے؟ میں نے بتایا۔” بیٹے جس کے چہرے پر زردی ،جھریاں ،داڑھی بے ربط ،بکھرے بال ،چارہ کاٹ کاٹ کر جس کے ہاتھ سبز ہو چکے ہوں، جس کا پیٹ کمر میں دھنساہو، جو سخت گرمی اور سخت سردی میں بچوں کے دو نوالے کمانے کے لیے کھیت میں موجود ہو، جس کی ایڑھیاں موسموں کی شدت سے پھٹ گئی ہوں، جس کے گھر کا دروازہ محلے کے دکاندار اور گاﺅں کے ساہوکار کے قرض نہ چکا سکنے کی وجہ سے ہر وقت کھٹکھٹارہتا ہو، جس کے ہل کی پنجالی میں ایک طرف بیل اور دوسری طرف گھرکافرد جُتاہوتاہے، جو سال کے 365دنوں میں دو یا تین بار اس وقت خوش ہوتا ہے جب اس کی فصل تیار ہوتی ہے کیونکہ فصل کاٹنے کے اگلے روز قریبی منڈی کا آڑھتی پھر اپنا قرض لینے پہنچ جاتا ہے۔ جو سارے گاﺅں کو دودھ بیچ کر خود پاﺅ بھر دودھ میں پانی ڈال کر اسے ”کچی لسی“ کا نام دے کر پی جاتا ہے۔ جو ہاتھ میں چھڑی پکڑے سر پر صافہ رکھے یا منڈاسا باندھے سوچوں میں گم رہتا ہے کہ اس کا بیٹا چند روپے سکول کی فیس دے پائے گا کہ نہیں، جس کے بچے ٹاٹ برانڈ سکول سے آگے اسی لیے جا نہیں پاتے کہ مزید داخلے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ دوائی نہ ہونے کی وجہ سے جو کھانستا ہوا مر جاتا ہے اور اس کی بیوی کے پاس کفن کے لیے چند روپے نہیں ہوتے۔ جس کے پاس بیج ہوتا ہے مگر کھاد کے لیے پیسہ نہیں ہوتے، کھاد ہو تو بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ جو زرعی ادویات کی خالی بوتلیں دیکھتا رہتا ہے اور پھر فصل تیار کھڑی ہو تو ژالہ باری اور قدرتی آفات آ دھمکتی ہیں۔ جس سے اس کے سُوکھے کھیت پر پانی پھر جاتا ہے(جبکہ آج کے دور میں پاکستان کے علاوہ ہر ملک میں فصلوں کے انشورنس و بیمہ جات ہوتے ہیں)مگر یہاں تو کسان کو سکھ کا سانس لینے دینا مقصود نہیں ہوتا“۔ میرا بیٹا بولا۔” پاپا اتنی مصیبتیں اٹھانے والا انسان کہلاتا ہے“؟میں نے جواب دیا۔” نہیں بیٹے وہ کسان کہلاتا ہے“۔ آج ہندوستان کی حکومت کسانوں کو بجلی تقریباً فری دے رہی ہے۔ ایک ٹیوب ویل کا ماہانہ بل صرف پچاس روپے ہے جبکہ پاکستان میں اوسطاً 15ہزار ہے جبکہ کھاد اور بیج کے لیے بھارت سمیت دنیا بھر میں کسان کو بلاسود قرضے جاری کیے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں زرعی ترقیاتی بینک اور زرعی سکیموں کے نام پر استحصال کا کھیل جاری ہے۔ پرویز الٰہی کے جانے کے بعد کبھی بھی نالوں اور نہروں کی بھل صفائی نہیں ہوئی۔ فی ایکڑ کھیت کا ٹھیکہ مشرف دور سے آدھا رہ گیا ہے۔ گندم،چاول اور اناج کی قیمتوں سے کسان کی روزی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی۔ اس وقت بظاہر تو گندم کی خریداری قیمت 1300روپے فی من مقررکی گئی ہے لیکن کسان اسے ہزار گیارہ سو روپے میں بیچنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح کپاس بھی 2007-08 ءکے مقابلے میں آدھی قیمت پر بیچنے پر مجبور ہے۔اس سے ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت اور لاکھوں مزدوروں کے مستقبل پر لات پڑی ہے۔ پھلوں کے باغات اجڑنے کے قریب ہیں۔ کسان زرعی ادویات افورڈ نہیں کرتے مگر سرمایہ دار کی اولادیں آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ کسان کو دمے کی ایک ٹیبلٹس میسر نہیں مگر ہمارے حکمران معمولی چیک اپ کے لیے بھی مہینے میں کئی بار لندن اور دوبئی یاترا کرتے ہیں۔ مگرقدرت اب تک خاموش ہے، سنا ہے اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، دیکھیں یہ کب برستی ہے۔