ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟
قرارداد پاکستان کو بیتے ہوئے تقریباً ۷۷ سال کا عرصہ ہو چلا ہے۔ اس قرارداد کو سب سے پہلے بنگال سے تعلق رکھنے والے مولوی فضل الحق نے پیش کیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ءسے چند سال پیشتر چودھری رحمت علی نے اسلامی جمہوریہ کا نام لفظ پاکستان پیش کیا تھا جسے قائداعظم کے تمام رفقا نے اتفاق رائے سے منظور کر لیا تھا۔ قرارداد پاکستان جیسے ہی منظور کی گئی سارے ہندو پریس نے بالعموم اور شمالی ہند کے ہندو اخبارات نے بالخصوص آسمان سر پر اٹھا لیا۔اب تک وہ لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ مسلمان کہاں جائیں گے۔ انہیں تو ہندوستان ہی میں رہنا ہے اور ان کی تعداد ہمارے مقابلے میں بہت کم ہے۔ یہ تو جمہوریت کا زمانہ ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے اور ہندوستان میں اس مناسبت سے جب بھی گنتی ہو گی کامرانی کا سہرا ہمارے سر پر بندھے گا۔ مسلمان اقلیت میں ہیں۔ یہ لوگ منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہندو پریس نے پاکستان کا نام سنتے ہی ایک قیامت بپا کر دی۔ قائداعظم ایک معاملہ فہم اور دور اندیش سیاستدان تھے۔ انہوں نے سمجھا اگر واقعی کوئی غلط فہمی ہے تو وہ رفع کر دی جائے۔ قرارداد پاکستان میں جہاں ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے دو قومی نظریہ کے تحت ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا گیا تھا وہاں قائداعظم نے دو ٹوک الفاظ میں اقلیتوں کے بارے میں یقین دلایا تھا۔ قائداعظم نے اس جلسہ میں یہ بھی فرمایا۔ مسلم اقلیتوں کو غلط باور کرایا گیا ہے کہ ہندوستان کی کسی تجویز تقسیم یا علیحدگی سے مسلمان بڑے گھاٹے میں رہیں گے۔ اور بے سہارا چھوڑ دئے جائیں گے۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں ایک متحدہ ہندوستان میں یا ایک مرکزی حکومت کے تحت مسلمان جہاں بھی اقلیت میں ہوں اپنے م¶قف کو بہتر نہیں بنا سکتے خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ وہ محض ایک اقلیت ہی رہیں گے۔
اس حقیقت کے مدنظر ہندوستان کی مسلم اقلیتوں نے قرارداد لاہور کی بلاتامل تائید کی۔ ہندو ہندوستان کی مسلم اقلیتوں کے سامنے سوال یہ آیا کہ سارا مسلم ہندوستان نو کروڑ مسلمانوں کے ساتھ ہندو اکثریت کے راج کے تحت چلا جائے یا کم از کم چھ کروڑ مسلمان جہاں وہ اکثریتی حلقوں میں ہیں اپنا وطن بنائیں اور اس طرح اپنے فہم و ادراک کے مطابق اپنی روحانی ‘ ثقافتی‘ اقتصادی اور سیاسی زندگی کو ترقی دینے اور اپنے مستقبل کو بنانے کا ان کو موقع ملے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہندو¶ں اور دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کا اختیار ہو۔ قرارداد پاکستان جن اصولوں پر منتج تھی ان میں چار اصول بہت اہم تھے۔ اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک اور ان کے تحفظ کا یقین‘ عدل و انصاف ہمارا نصب العین ہو گا۔قائداعظم ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ تاریخ اسلام اور سیرت رسول کا وہ اچھی طرح مطالعہ کر چکے تھے جبھی تو انہوں نے پیغمبر آخر الزماں کے الفاظ کی روشنی یعنی قرآن کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو تو کبھی منتشر نہیں ہونگے۔ بالکل اسی طرح آپ اتحاد و یقین محکم اور تنظیم کا قوم کو درس دیا تھا۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے قائداعظم کے ان سنہری اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ذاتی مفاد پیش نظر رکھ کر حکومتیں کیں۔ نتیجتاً ملک خوشحالی کی بجائے بد حالی کی جانب گامزن ہو گیا۔ مظلوم انصاف کے لئے ترستے رہے۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے تحفظ و حقوق کے بارے میں قائداعظم نے جو فرمایا تھا ان کے فرمان کی حکمران پاسداری نہ کر سکے۔ ہر سال ۲۳ مارچ کو ہم تجدید عہد کرتے ہیں صرف تقاریب کی حد تک آج تک جتنے حکمران آئے ان کا کردار قوم نے دیکھ لیا۔ قائداعظم کا یہ فرمان”ہمارے وہ بھائی جو ہندوستان میں اقلیت میں ہیں۔ ہم نہ ان کو فراموش کر سکتے ہیں نہ ان کی طرف سے لاپرواہ ہو سکتے ہیں۔ ہماری دلی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ کاش ہمارے حکمران بانی پاکستان قائداعظم ؒ کے فرمان کی پاسداری کرتے ہوئے حکمرانی کرتے تو آج پاکستان وہ ہوتا جس کا خواب شاعر مشرق علامہ اقبالؒ اور خود بانی پاکستان نے بیان کیا تھا۔ قوم اور حکمران ہر سال ۲۳ مارچ کو تجدید عہد کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔