یہ کائنات اللہ کی تخلیق ہے قرآن مجید میں کئی مقامات پر تخلیق کی مخلوق کیلئے آسانیوں اور نعمتوں کا ذکر ہوا ہے۔ جمادات‘ نباتات‘ حیوانات اور جن و بشر و ملائکہ کی تخلیق کا ذکر ہے۔ خدا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان کافروں سے پوچھو کہ کائنات کو کس نے خلق کیا تو یہ بھی اقرار خدا کرینگے۔ کائنات کو سائنسی ضابطوں کے مطابق منظم و مربوط خلق کیا گیا ہے جو وجود خدا کی سائنٹیفک دلیل ہے۔ قرآن مجید نے اللہ کیلئے ’’احسن الخالقین‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ تخلیق رزق فقط کار پروردگار ہے۔ ’’الحمد اللہ رب العالمین‘‘ سورۃ الفاتحہ کا آغاز ہے۔ عربی زبان میں ’رب‘‘ کے معنی ’’پرورش‘‘ کرنیوالے کو کہتے ہیں۔ ’’رب الارباب‘‘ اللہ کی ذات ہے۔ نظام قرآنی کو ’’نظام ربوبیت‘‘ بھی کہا جاتا ہے یعنی ایسا نظام جس میں ہر کہ و مہ اور ہر خاص و عام کی پرورش و پرداخت کا انتظام ہو۔ پروردگار کے معنی بھی پالنے والے کے ہیں۔ اللہ تو چیونٹی کو بھی رزق دیتا ہے تو پھر انسان کیسے محروم رزق ہو سکتا ہے۔ دراصل معاملہ تقسیم رزق کا ہے۔ زمانہ قدیم میں طاقتور لوگ زمین پر قابض ہو جاتے تھے اور زمیندار و جاگیردار کہلاتے تھے‘ کسانوں کا استحصال کرتے تھے‘ چودھری‘ سردار‘ خان اور نواب ان داتا بنے پھرتے تھے اور یہی اہل زمین اہل زور ہوتے تھے۔ ذرائع پیداوار پر یہ قابض ہوتے اور زمین وراثت میں تقسیم ہوتی۔ جاگیردار کا بیٹا جاگیردار اور کسان کا بیٹا کسان۔ پھر صنعت کار اور سرمایہ دار پیدا ہوئے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے اثرات نے تمام دنیا کو متاثر کیا۔ ’’زر کثیر‘‘ اور ’’زر فالتو‘‘ نے سرمایہ داری کو جنم دیا۔ ’’ضرورت سے زائد‘‘ دولت بنیاد نظام سرمایہ داری ہے اب ’’اہل زمین‘‘ کے ساتھ ’’اہل زر‘‘ بھی ’’اہل زور‘‘ بن گئے۔ میر تقی میر نے بھی ’’زور و زر‘‘ کی بے اعتنائیوں اور فتنہ سامانیوں کودشمن عشق قرار دیا۔ پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا جاگیرداروں‘ صنعت کاروں‘ تاجروں اور سرمایہ داروں کی زد میں ہے۔ علاوہ ازیں بہتی گنگا میں ’’مارشلائی جرنیلوں‘‘ نے بھی خوب ہاتھ دھوئے۔ آوے کا آوہ ہی بگڑا ہے۔ اہل علم ذلیل و خوار اور اہل زر صاحب دستار۔ قرآن مجید میں اہل علم اور صاحب کردار کو فضیلت و سعادت و قیادت و سیادت و خلافت تفویض کی گئی ہے۔ تقسیم رزق کی مساویانہ و عادلانہ تحکیم و تعلیم ہے۔ ضرورت سے زیادہ کی پہلی منزل خود اختیاری ہے۔ حکم قرآن ہے ’’قل العفو‘‘ ضرورت سے زیادہ غربا و مساکین میں تقسیم کر دو بصورت دیگر خذالعفو کی منزل ہے یعنی اسلامی ریاست فالتو دولت ضبط کرنے کی پابند ہے۔ جن ممالک میں بندہ مزدور کے اوقات تلخ ہونگے وہاں روس اور چین کی طرح اشتراکی انقلاب آئیگا یا پھر فرانس کی طرح فلاحی انقلاب آئیگا۔ مسلمان ممالک سرمایہ داری کی زد میں ہیں خونین انقلاب کا انتظار کریں۔ سورۃ النحل میں اللہ انسانوں کیلئے اپنی عنایت کردہ نعمتوں کا ذکر کرتا ہے۔ مویشیوں میں دودھ کا پیدا کرنا‘ کھجور اور انگور سے شکر اوردیگر غذاؤں کا پیدا کرنا اور شہد کی مکھی سے شہد کا بننا‘ رزق کی تخلیق نعمت پروردگار ہے‘ سارا جھگڑا تقسیم رزق کا ہے۔ اللہ نے تخلیق رزق تمام انسانوں کیلئے کی تو پھر تقسیم رزق میں تفریق کیوں ہے۔ یہی تفریق باعث عناد و فساد ہے۔ اسی تفریق سے سرمایہ داری نظام نے جنم لیا۔ ’’فالتو زر‘‘ سرمایہ داری نظام کی بنیاد ہے۔ کارل مارکس نے اسی ’’فالتو زر‘‘ کی نفی کی اور ’’مساوات‘‘ کی بنیاد رکھی جسے اشتراکیت کا نام دیا گیا۔ مسلمان علماء و مفکرین میں تقسیم رزق کے بارے میں دو نظریات مروج ہیں۔ اول وہ طبقہ ہے جو سورۃ النحل کی آیت نمبر71 کا حوالہ دیتا ہے جس میں ارشاد ربانی ہے ’’اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت دی ہے مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی وہ اپنی دولت زیر دست لوگوں پر خرچ نہیں کرتے حالانکہ وہ سب اس میں برابر کے شریک ہیں تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں‘‘۔ جو لوگ صاحبان زر ہیں وہ اس آیت سے یہ استدلال دیتے ہیں کہ اللہ نے انہیں امیر بنایا ہے اور تقسیم رزق چونکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے لہذا وہ جسے چاہتا ہے امیر بناتا ہے اور جسے چاہے غریب بناتا ہے گویا امیری اور غریبی من جانب اللہ ہے البتہ اس آیت میں غریبوں کو زکوٰۃ اور صدقات دینے کا حکم ہے جو ہم امیر لوگ غریبوں کو دیتے رہتے ہیں۔ اس توجیہہ و تفسیر کے برعکس دانشوران انقلابی اور علمائے مساوات محمدی کا کہنا ہے کہ اللہ نے دولت میں سب کو برابر کا شریک قرار دیکر اس آیت میں یہ بیان کر دیا کہ انسانوں کی بنیادی ضروریات یکساں ہیں۔ روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ تعلیم اور حفظان صحت سب انسانوں کی بنیادی ضروریات ہیں ان کا پورا کرنا اہل زر کا شرعی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی حکومت کا بھی قانونی اور شرعی فریضہ ہے اور اسلامی ریاست ایک فلاحی ریاست ہوتی ہے جہاں تک یہ معاملہ ہے کہ اللہ نے بعض لوگوں کو رزق میں دوسرے پر فضیلت دی تو یہ بھی مبنی برانصاف و محنت و صلاحیت ہے۔ ایک پی ایچ ڈی کی تنخواہ ایک میٹرک پاس سے زیادہ ہی ہوتی ہے۔ دیانتداری سے کاروبار کرنے والا اگر مالدار ہے تو رزق حلال بصورت دیگر رزق حرام۔ روس اور چین کے اشتراکی نظام میں بھی مزدور اور افسر کی تنخواہ میں فرق ہے لیکن یہ فرق ۔۔۔ کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ اقتصادیات اسلامی کی آخری منزل زکوٰۃ اور صدقات سے آگے ہے اور وہ قل العفو کی ہے۔ بنیادی ضروریات ہر شخص کو فراہم کی جائیں اور ’’زر فالتو‘‘ دیدیا جائے یا پھر ازروئے قرآن ’’خذالعفو‘‘ کی منزل ہے حکومت اسلامی چھین لے۔ اب ہم پاکستان میں تقسیم رزق کا اجمالاً تذکرہ کرتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبال مقصود پاکستان تھے اور حضرت قائداعظم بانی پاکستان تھے۔ دونوں جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے مخالف تھے۔ علاوہ ازیں دونوں مارکسی اشتراکیت کے بھی خلاف تھے۔ علامہ اقبال انقلاب روس سے شدید متاثر ہوئے اور انہوں نے ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ نظام بھی لکھی۔ قرآنی تصور اقتصادیات کی بنیاد ’’قل العفو‘‘ کو سراہتے ہوئے کہا …؎
قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم
بے سود نہیں روس کی یہ گرمئی رفتار
جو حرف قل العفو میں پوشیدہ تھی اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
علامہ اقبال نے جب روسی اشتراکیت میں چنگیزیت‘ فسطائیت و آمریت و دلیریت دیکھی تو اشتراکیت کو بھی رد کر دیا اور کہا ’’کیا ڈرائیں گے مجھے یہ اشتراکی کوچہ گرد‘‘ مارکسی اشتراکیت نے روس کو زندان میں تبدیل کر دیا۔ روٹی‘ کپڑا‘ مکان تو دیا مگر انسان کا تحریر وتقریر اور آزادی رائے کا بنیادی حق چھین لیا۔ ستم بالائے ستم حکمران طبقہ عیاشیوں میں مبتلا ہو گیا‘ ریاستی جبر نے جمہوریت کشی کی اور انسانوں کو غلام بنا دیا۔ انگلستان کے فلسفی برٹرینڈرسل نے ’’شاہراہ غلامی‘‘ (Road To Serf Dom) لکھی اور روسی جبر و جور کو بے نقاب کیا۔ اسی طرح امریکی اور مغربی معاشرے بھی انسانوں کا سماجی و معاشی استحصال کرتے ہیں۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر‘ امیروں کے کتوں کیلئے دودھ ملائی اور غریبوں کے بچوں کیلئے تباہی ہی تباہی۔ قرآن مجید نے ’’وشاورھم فی الامر‘‘ کا حکم جاری کر کے نظام مشاورت و جمہوریت کا اعلان کر دیا اور قل العفو اور خذا العفو کا اعلان کر کے ’’مساوات محمدی‘‘ کا اعلان کر دیا۔ مسلمانوں کے ممالک میں نہ جمہوریت ہے اور نہ مساوات‘ ملوکیت و ملائیت و خانقاہیت و آمریت و عسکریت کا شکار ہیں اور جاگیرداری و سرمایہ داری کا شکار ہیں۔ قائداعظم نے کئی تقاریر میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کی جگہ عدل و انصاف اور مساوات کا نظام ہو گا۔ بدقسمتی سے مصور پاکستان قبل از تخلیق پاکستان اللہ کو پیارے ہو گئے اور بانی پاکستان قائداعظم تخلیق پاکستان کے ایک سال بعد راہئی ملک عدم ہوئے ورنہ پاکستان ایک اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست ہوتا اور تقسیم رزق عادلانہ و مساویانہ ہوتی۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024