پاکستانی معاشرے میں آج بھی عورت کے کام کرنے مختلف انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ گو آج کی عورت تعلیم میں مردوں سے کسی طور بھی پیچھے نہیں ہے۔ بہت سے شعبوں میں خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہوا ہے۔ مگر ملازمت میں آج بھی خواتین چند مخصوص شعبوں میں فعال نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر، استاد یا پھر انہی سے ملتا جلتا کوئی اور شعبہ خواتین کے لیے عزت مند سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم میں کہیں آگے ہونے کے باوجود آج بھی عورت کے لیے بہت سے منافع بخش شعبوں میں نوکریوں کا تناسب بہت کم ہے۔ ہمارے لوگ عورت سے گھروں میں، کھیتوں میں ہزار کام کروا لیتے ہیں۔ مگر ایک پڑھی لکھی عورت کو کسی دفتر میں پرکشش تنخواہ پر کام کرتے دیکھ کے پتہ نہیں کہاں سے ان کی غیرت جاگ جاتی ہے۔ گویا عورت کے کام کرنے میںمسئلہ چادر چار دیواری کا نہیں رہ جاتا ہے۔ بلکہ اس سوچ کا مسئلہ ہے جو عورت کو خود مختار ہونے کے بعد مرد کی برابری کی سطح پر لے کے آسکتا ہے۔ آج بھی مذہب کی آڑ میں عورت کو گھر میں قید رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق، مراعات، تحفظ اور ان کے ساتھ روا جنسی امتیاز کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سے قوانین بنائے جا چکے ہیں۔ ہماری حکمران عورتوں کے لیے بہت سے قانون جلدی جلدی بنا کے لاگو کیے جاتے ہیں۔ مغربی معاشرے کی اندھی تقلید کرتے وقت ہمارے حکمران خواتین کے لیے قانون سازی کرتے وقت علاقائی اور مذہبی خیالات کو فراموش کر رہے ہیں۔ آج کی عورت کے لیے ہمارے حکمرانوں نے بہت سے قانون بنائے ہیں۔ عورت کے معاشرے میں بہتر کردار کے حوالے سے ہر کوئی فکر مند نظر آتا ہے۔ مگر عملی طور پر ہماری عورت آج بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ کہلاتا ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی ہم عورت کو برابری کے حقوق نہیں دے پا رہے ہیں۔ عورت کو ہر مہذب معاشرے میں عزت کا مقام دیا گیا ہے۔ مگر جو عزت اسلام نے عورت کے بارے میں بتائی ہے۔ باقی دنیا اس کو ابھی سمجھ ہی نہیں سکی ہے۔ عورت ماں کے روپ میں ہے تو اولاد کے لیے جنت کا دروازہ ہے۔ عورت بیٹی ہے تو رحمت ہے۔ عورت بیوی ہے تو آنکھوں کی ٹھنڈک کہلائی گئی ہے۔ عورت بہن ہے تو بھائیوں کے لیے فخر کا سبب ہے۔ الغرض عورت ہر روپ میں عزت و اکرام کی حق دار بتائی گئی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جہاں عورت کے تحفظ کے لیے قانون تو بہت سے بن چکے ہیں۔ جہاں عورت کے نام پہ این جیوز تو بہت سا مال بنا رہی ہیں۔ مگر ایک عام عورت آج بھی اپنے آپ کو منوانے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے۔ آج کی عورت تعلیم میں مردوں سے کہیں آگے ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اُسے مردوں سے بہت کم اُجرت میں نوکری ملتی ہے۔ عورت کو نوکری کہاں ملتی ہے؟۔ پرائیویٹ سکول و کالجز میں پڑھی لکھی نوجوان لڑکیوں کو آسانی سے ملازمتیں مل رہی ہیں۔ ایسے ادارے جہاں تعلیم تو بہت مہنگے داموں دی جا رہی ہوتی ہے۔ مگر خواتین اساتذہ کو ایک دیہاڑی دار مزدور سے بھی کم اُجرت دی جاتی ہے۔ ایم اے ٟایم ایس سی پاس لڑکیوں کو بہت سے پرائیویٹ تعلیمی ادراوں میں پانچ سے دس ہزار تنخواہ میں بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ جہا ںنہ تو ان کی نوکری مستقل ہوتی ہے۔ نہ انہیں تنخواہ باقاعدگی سے دی جاتی ہے۔ بہت سے نامور تعلیمی ادارے چھٹیوں میں بچوں سے تو ’’ٹیوشن فیس‘‘ لے لیتے ہیں۔ مگر بچاری ٹیچرز کو چھٹیوں میں ادائیگی نہیں کرتے۔ آج کی عورت کو طرح طرح سے ڈرایا جاتا ہے۔ مشرق کی عورت عورت ہی رہتی ہے ۔چاہیے جتنا مرضی پڑھ جائے۔ ملازمت پیشہ خواتین کے لیے مسائل کے انبار نظر آتے ہیں۔ دیہات کی بات تو چھوڑیئے۔ شہروں میں بھی ملازمت پیشہ خواتین کے لیے کوئی باعزت سواری دستیاب نہیں ہے۔ ایک نوجوان لڑکی جس نے کسی بھی سکول، کالج یا دفتر جانا ہوتا ہے۔ وہ صبح خود کو تیار کر کے گھر سے نکلتی ہے۔ اچھے کپڑے پہننا، ہلکا پھلکا میک بھی ضروری ہوتا ہے۔ جب ایسی خواتین روزانہ کسی سٹاپ پہ سواری کے انتظار میں کھڑی دکھائی دینے لگیں۔ تو بہت سے من چلے ان خواتین کے گرد منڈلانا شروع کردیتے ہیں۔ صرف پانچ دس فیصد خواتین ہمت سے کام لے کے ان تماش بینوں کے مزاج درست کر سکتی ہے۔ باقی نوے فیصد خواتین اپنی عزت بچانے کے لیے درگزر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ درگزر کی یہ عادت ان تماش بینوں کے حوصلے بڑھا دیتی ہے۔ پھر باقاعدہ پیچھا کیا جاتا ہے اور بہت سے معاملات شروع ہونے لگتے ہیں۔ شریف عورت ’’ڈر‘‘ کی وجہ سے گھر والوں سے بھی بات نہیں کرتی۔ مشکل سفر کے بعد دفتروں میں ایڈمنز کے رویے بھی اکثر خراب رہتے ہیں۔ ہم اسلامی ملک میں رہتے ہوئے اپنی خواتین کو عزت نہیں دے پا رہے۔ مگر جن ملکوں کو ہم مادر پدر آزاد کہتے ہیں۔ وہاں کا قانون اتنا سخت ہوتا ہے کہ کسی میں جرات ہی نہیں ہوتی کہ پرائی عورت کو تنگ کر سکے۔ عورتوں کے لیے بہت سے مسائل ہیں مگر سب سے اہم اور توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ آج پڑھی لکھی اکثر خواتین شادی کی عمر سے آگے نکل رہی ہیں۔ لڑکوں کا تعلیم میں کم دلچسپی لینا۔ یا لڑکیوں کا تعداد میں بھی زیادہ ہونا اس مسئلے کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔ آج خیال کیا جاتا ہے کہ انپڑھ لڑکی کی شادی جلد یا دیر ہو ہی جاتی ہے۔ مگر پڑھی لکھی لڑکیوں کی اکثریت مناسب رشتوں کے چکر میں اپنے بال سفید کر رہی ہے۔ جب ایک پڑھا لکھا مرد کسی بھی کم تعلیم یافتہ خوبصورت لڑکی سے بخوشی شادی کر لیتا ہے۔ تو ایک ویل ایجوکیٹڈ لڑکی کیوں ایک کم تعلیم یافتہ مگر کڑیل جوان کے ساتھ گھر بسانے کی کوشش نہیں کرتی ہے۔ آج دنیا میں خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے ہی اعداد و شمار بیان کیے جاتے ہیں۔ قران پاک میں اللہ پاک نے مردوں کے لیے چار شادیوں کی اجازت دی ہوئی ہے۔ مگر ہماری حکومتیں اور معاشرہ دوسری شادی کو قبول کیوں نہیں کر پا رہا ہے۔ اس خطے میں پہلے ہی عورت سوتن کو برداشت کرنے کی عادی نہیں ہے۔ وہ سوتن کے بجائے موت کو ترجیع دینے لگتی ہے۔ رہی سہی کسر ہماری حکومتوں نے پوری کردی ہے۔ عورت کے حق کو محفوظ کرنے کے چکر میں عورت کی عزت کو غیر محفوظ کردیا گیا ہے۔ پہلے لوگ چھپ کے ہی سہی دوسری شادی کر لیتے تھے۔ بہت سی خواتین کے گھر آہستہ آہستہ آباد ہوجایا کرتے تھے۔ مگر اب نئے قوانین کے بعد دوسری شادی کو ناممکن بنادیا گیا۔ ہمارے علما کرام بھی اس سلسلے میں کچھ عملی کام نہیں کر رہے ہیں۔ دوسری شادی کو مشکل ترین بنادیا گیا ہے۔ موبائل نیٹ نے لڑکیوں کی زندگیوں کے لیے اور بھی بہت سے مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ ہماری جن بچیوں کی طرف آج سے بیس سال پہلے کوئی آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ آج انہی کے ہاتھوں میں موبائل فون ہیں۔ اور وہ گھر بیٹھے ماں باپ کے سامنے ہی محلے کے لڑکوں سے دوستیاں کر رہی ہوتی ہیں۔
آج ضرور ت ہے نوجوان لڑکیوں کے لیے بہترین تعلیم کے ساتھ ساتھ محفوظ سفری سہولتیں میسر ہوں۔ وہ آرام سے دفاتر میں جاسکیں۔ ماں باپ اور معاشرہ دیکھے تو سہی کہ کتنے فیصد بچیاں رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے گھرو ںمیںبیٹھ چکی ہیں اور یہ سلسلہ کیسے بہتر ہوسکتا ہے۔ سب سے اہم کردار ہمارے اساتذہ اور علما کرام کو ادا کرنا پڑے گا۔ دوسری شادی کو آسان بنانا پڑے گا۔ پڑھی لکھی بچیوں کو کم تعلیم یافتہ مگر باروزگار لڑکوں سے بیاہ کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا پڑے گا۔ لڑکیوں کی تعداد کا زیادہ ہونا اور لڑکوں کا کم ہونا ایک اہم مسئلہ ہے۔ اسے سمجھتے ہوئے معاشرتی اصول و ضوابط تیار کرنے ہوں گے۔ خواتین کو ملکی ترقی میں شامل کرنے کے لیے ان کے اندر اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔ بلکہ ان کے لیے پرائیویٹ شعبوں میں پرکشش تنخواہوں کے لیے قانون سازی کرنی ہوگی۔ قانون سازی کرتے وقت اسلامی اور اس خطے کی ثقافت کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔
اسرائیلی جہاز پر اگر کوئی پاکستانی موجود ہے تو اسے برادرانہ ...
Apr 15, 2024 | 14:30