آج ہم جس ابتری ا ور بحرانی کیفیت کا شکار ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ دین سے دوری اور اپنے مشاہیر کے بتائے ہوئے راستے سے گمراہی کا نتیجہ ہے۔ ہم آزمائشوں کا راستہ ترک کرکے آسائشوں کی الائشوں میں مبتلا ہو چکے ہیں جس سے روح کی تڑپ اور قلب کی گرمی سست ہوتی چلی گئی۔ ہمارے بزرگوں نے یہ خطہ زمین کتنی قربانیوں مشکلوں اور اذیتیں جھیل کر حاصل کیاتھاہم نے یہ بات بھلا دی۔ اللہ مہربان ہے۔ کلام اللہ میں بارہا انتباہ کیا گیا ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرو اور غیر مسلموں پر اعتماد نہ کرو۔ فرمان الٰہی ہے ”مسلمانوں تم اپنی دشمنی میں سب سے زیادہ یہود اور مشرکین کو پاﺅگے“ قرآن کریم کی پیش گوئی بھی درست ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”ایک وقت آئے گا جب یہود و نصاریٰ آپس میں ایک ہوجائیں گے“ اسے امام صحافت مجید نظامی اپنے مخصوص انداز میں شیطانی اتحاد ثلاثہ کہا کرتے تھے۔ بھارت ہمارے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتا اور ہندو مہابھارت اور اکھنڈ بھارت پر ایمان رکھتا ہے۔ اسرائیل نے 1967ءکی عرب اسرائیل جنگ جیتنے کے بعد کہا تھا کہ ہمیں اصل خطرہ عالم عرب سے نہیں بلکہ پاکستان سے ہے۔ یہودیوں کو معلوم تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے لہذا سب سے بڑا دشمن پاکستان کو مانتے ہیں۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہاں انتہا پسند عیسائیوں کا قبضہ ہے۔ پنٹاگون والے صلیبی جنگوں کے انتقام کے جنون میں پاگل دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے امریکی حکمران دھوکہ اور فریب کے ذریعے زیر کرتے تھے مگر اب پینٹاگون کھل کر مسلم دشمنی میں سامنے آگیا ہے۔ بھارت سے بڑھتی ہوئی محبت کے پہاڑ اور وہاں اسلحے کا انبار پاکستان کے خلاف تازہ پابندیاں مسلم دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔
تازہ اطلاع کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان نے 621.5 ارب ڈالر کا دفاعی پالیسی بل منظور کر لیا ہے جس میں صرف پاکستان کو ملنے والی امداد پر شدید پابندیاں نافذ کی گئیں۔ ایوان زیریں میں دفاعی پالیسی بل 2018ءپیش ہوا جس کے حق میں 444 اور مخالفت میں 81 ووٹ آئے۔ یہ بل یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہوگا۔ نئی شرائط یہ عائد کی گئیں کہ پاکستان کو امداد حاصل کرنے کے لئے اپنے ملک میں نیٹو سپلائی راستوں کی ہر صورت حفاظت کو ممکن بنانا ہوگا۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لئے غیر معمولی اقدامات کرنے ہونگے۔ سرحد پار سے ہونے والے حملوں پر قابو پانا، بارودی سرنگوں کے خطرات سے نمٹنے کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے ہونگے وزیر ستان سے حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ اہم شرط ہے۔ بل کے مطابق 2017 سے 31 دسمبر 2018ءتک پاکستان کے لئے اعلان کردہ چالیس کروڑ ڈالر کی امداد تب تک نہیں دی جائے گی جب تک امریکی وزیر دفاع اس عمل سے مطمئن نہ ہوجائیں گے۔ دریں اثناءاسی بل میں بھارت سے دفاعی تعاون میں مزید اضافے کو منظور بھی کیا گیا جس میں بھارتی موقف کی پرچارک امریکی رکن اسمبلی ایمی بیرا کا کردار قابل ذکر ہے۔ بل کے مطابق امریکہ کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کو چھ ماہ کی قلیل مدت میں بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاعی معاہدوں اور ہر قسم کے دفاعی و اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے منصوبے تیار کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ یہ بل پہلے سینٹ میں پیش ہوگا بعد ازاں صدر ٹرمپ کی منظوری کے بعد قانون کی شکل اختیار کر جائے گا۔
یاد رہے کہ امریکہ کی جانب سے یہ پابندی پاکستان کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ متعدد مرتبہ ایسے حالات کا سامنا کر چکے ہیں۔1971ءمیں پاکستان کی مدد کے لئے چھٹا امریکی بحری بیڑہ روانہ ہوا تھا جو آج تک نہ پہنچ سکا پھر پریسلر ترامیم کئی سال جاری ہیں۔ 1998ءمیں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کو دھماکہ نہ کرنے کی تلقین اوردھماکے کے جرم کی سزا میں پابندیوں کو بھی پاکستانی قوم نے بڑے وقار کے ساتھ قبول و برداشت کیا۔ F-16 کی فروخت اور کولیشن فنڈ پر عائد کردہ پابندیاں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس رقم کو امداد سے تعبیر کیا جا رہا ہے وہ دراصل کوئی خیرات و زکوة نہیں بلکہ ہماری اہم تنصیبات اور راہ داریوں کا غیر طے شدہ معاوضہ ہے۔ حکومت پاکستان کے جاری اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کی بھیانک جنگ میں سب سے زیادہ جانی و مالی خسارہ اٹھانا پڑا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے عسکری اور سول ساٹھ ہزار کے قریب افراد نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا جو امریکہ کے پچاس اتحادیوں سمیت کی ہلاکتوں سے درجنوں گنا زیادہ ہے۔پاکستان کے انفراسٹریکچر کے نقصان کا تخمینہ 108 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے فراہم کی گئی رقم جسے امریکہ امداد کہتا ہے اس کی کل مالیت 16 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں جو کئی اقساط میں دی گئی۔ جو بھگتنے والے نقصانات کا عشر عشیر بھی نہیں نہ ہی ساٹھ ہزار جانوں کی قیمت کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
قارئین کرام! بل میں درج شدہ شرائط کسی طور پر پورا ہونا ممکن نہیں کیونکہ دہشت گردی کا اصل گڑھ وہ افغانستان کا ستر فیصد علاقہ ہے جہاں امریکی فوج بے بس او رلاچار دکھائی دیتی ہے۔ دوسرے پاک افغان 27 سو کلومیٹر طویل سرحد پر کنٹرول کرنا پاکستان کے لئے ممکن نہیں۔ یہ بل دراصل پاکستان کو سی پیک سے دوررکھنے کی سازش ہے بلکہ ہماری آزادی خود مختاری کے لئے چیلنج ہے۔ ہم ایک غیور باوقار قوم ہیں۔ ہم کسی قیمت پر بھی اپنی بقا اورخودمختاری کا سودا کرنے کو تیار نہیں۔مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح قائداعظم کی رحلت کے بعد حکومت کی رہنمائی فرماتی رہیں۔ ان کی دور رس بصیرت نے پاک امریکہ طرز تعلق کو بھانپ لیا تھا لہٰذا ایک موقع پر سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا ”اس بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کے باعث ایک دن ہم امریکہ کے غلام بن جائیں گے“ آج ہم اسی ڈگرپر جا پہنچے۔ ہماری بقا اسی میں ہے کہ اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے محنت اور قربانی کو شعار بنائیں تب ہی ایک جدید فلاحی اسلامی ریاست بنا سکتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024