بحیثیت طالب علم گْو کہ راقم کسی وسیع مطالعہ کا دعویٰ نہیں کر سکتا لیکن علم کا جتنا رزق اس خاکسار نے بڑے بوڑھوں، کتابوں اور سوشل میڈیا سے حاصل کیا ہے اس کی روشنی میں راقم مجموعی طور پر اپنے تئیں یہ تاثر قائم کرنے اور اس کا اظہار کرنے میں اپنے آپ کو ایک حد تک حق بجانب سمجھتا ہے کہ دنیاوی زندگی میں بیشتر ایسے الفاظ اور موضوعات کی اکثریت ملتی ہے جن کی علم کی زبان میں تعریف یا تشریح کیلئے شائد ہی کوئی ایک academic consensus پایا جاتا ہو۔ نقادوں کے نزدیک چونکہ ہر انٹلیکچول کی اپنی ذہنی کفیت، اختراع اور سوچ ہوتی ہے اس لیئے اس حقیقت سے انکار یا فرار ممکن نہیں کہ مختلف آرائ، سوچ اور عقائد کے حامل انٹلیکچول کسی ایک نقطے پر متفق ہو سکیں۔ اس تناظر میں ویسے تو روزمرہ زندگی اور ڈکشنری ایسے بہت سے موضوعات اور الفاظ سے بھری پڑی ہے جنکی تعریف پر consensus پایا جاتا ہو لیکن ان دنوں ایک ایسا لفظ پوری دنیا کی گفتگو کا موضوع دکھائی دیتا ہے جسکا نام دہشت گردی ہے۔ مزے کی بات انٹلیکچولز تو ایک طرف اقوام متحدہ جیسا بین الاقوامی ادارہ بھی اس لفظ کی کوئی واضع تعریف وضع کرنے سے قاصر نظر آتا ہے جو کہ راقم ہی نہیں دنیا کے ہر ذی شعور کیلیئے کسی طرح ایک بحران سے کم نہیں۔ باریک بینی سے اس بحران کی گہرائی میں جا کر اگر اسکے حقائق جاننے کی کوشش کریں تو اس نتیجے پر پہنچنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی دیکھنے کو مل رہی ہے اس میں افراد کی بجائے مجموعی طور پر مختلف ریاستوں کا اثر و رسوخ ، عمل دخل اور کردار دیکھنے کو ملتا ہے۔ جسکی زندہ مثالیں روہنگیا، افغانستان ، کشمیر، فلسطین، عراق، لیبیا اور شام ہر ذی شعور کی آنکھیں کھولنے کیلیئے کافی ہیں۔ ریاستوں کے ایسے کردار اور کس طرح یہ ریاستیں اس گھناونے کھیل میں شامل ہوتی ہیں دنیا میں اگر اسکی کوئی واضع مثال دینی ہو تو اس حقیقت کو بے نقاب کرنے کیلیئے دنیا اس سے بڑے ثبوت کی محتاج نہیں جب پچھلے سال ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے بنگلہ دیش کے دورے کے درمیان اپنے ایک بیان میں یہ برملا اعتراف کیا کہ 1970ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلیئے ہندوستان نے ریاستی سطح پر اس عمل میں حصہ لینے والوں کی پرتشدد کارروائیوں میں نہ صرف سپورٹ کی بلکہ اس میں اسکی افواج نے براہ راست حصہ بھی لیا۔ بات صرف اس اعتراف پر ہی نہیں رکتی بلکہ فکر کی حدوں سے نکل کر تشویش کی حدوں کو چھوتی ہے جب مودی جیسا فاشسٹ یہ کہتا ہے کہ ہمیں اپنے ماضی کے اس فعل پر نہ صرف فخر ہے بلکہ مستقبل میں بھی ہم ایسے جارحانہ عزائم سے باز نہیں آئیں گے۔ دیکھنے کی بات ہے کہ کیا دنیا کا کوئی قانون کوئی ضابطہ کوئی اخلاق کسی ریاست کو ایسی کاروائی کی اجازت دیتا ہے۔ آئیے اس سلسلے میں دیکھتے ہیں کہ علوم سیاسیات political science میں کسی بھی ریاست کی کیا تعریف ہے اور اسکے کیا اختیارات ہیں۔ ریاست کی تعریف جاننے کیلیئے دنیا زیادہ تر Max Weber's کی بیان کردہ تعریف پر انحصار کرتی ہے جسکے مطابق ریاست وہ ٹھوس سیاسی آرگنائزیشن ہے جو ایک مرکزی حکومت کے ذریعے ایک مخصوص علاقے جسکی حدود کا تعین ہوتا ہے اس پر موثر کنٹرول قائم رکھنے کیلیئے قوت کے legitimate استعمال کا حق رکھتی ہے اور ریاست کے اداروں میں انتظامی مشینری یعنی کہ سول بیوروکریسی، عدلیہ اور افواج کا شمار ہوتا ہے جنکا ریاست کے اندر دائرہ اختیار واضع کیا ہوتا ہے۔ علمی اور سفارتی حلقوں میں اس definition کے علاوہ ریاست کو define کرنے کیلیئے جس ایک اور تعریف کا سہارا لیا جاتا ہے اس کو 1933ء کے Montevideo Convention on Rights and Duties of State میں واضع کیا گیا جس کے مطابق ریاست ایک ایسے علاقے کو کہتے ہیں جو متعین کردہ سرحدوں کے اندر ایک مخصوص آبادی پر مشتمل ہوتا ہے جن کی اپنی ایک حکومت ہوتی ہے جو طاقت کے جائز استعمال کے ذریعے اپنے متعین کردہ علاقے پر موثر کنٹرول کا حق رکھتی ہے اور دوسرے ممالک سے اپنے تعلقات طے کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ان دونوں تسلیم شدہ یا دوسرے لفظوں میں طے کردہ تعاریفوں کا تجزیہ کریں تو یہ بات پتھر پر لکیر کے طور کہی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی ریاست صرف اور صرف اپنی ریاست کی متعین سرحدوں کے اندر legitimate جائز قوت کے استعمال کا حق رکھتی ہے۔ تمام بین الاقوامی قوانین اس بات پر یک زبان ہیں کہ اپنی سرحدوں کے باہر کسی بھی ریاست کا طاقت کے استعمال کا کوئی بھی قدم جارحیت کے زمرے میں شمار ہو گا لہذا اگر میرا ملک اج پاکستان خاصکر بلوچستان کے حوالے سے بھارت کے کردار پر دنیا کی توجہ مبذول کروا رہا ہے تو یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں لیکن کہتے ہیں کہ کسی دوسرے کے قدم پر محاسبے کا مطالبہ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ محاسبہ کا مطالبہ کرنے والا خود کس مقام پر کھڑا ہے۔ اس سلسلے میں اوپر بیان کردہ تعاریف کی روشنی میں اپنے ملک کی حالت زار دیکھتا ہوں تو میرے اندر کا پاکستانی مجھ سے دو سوال کرتا ہے۔ اوّل وہ مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ اج جسطرح کوئی مذہبی گروہ ہو یا سیاسی جماعت جب چاہے راستے روک کر پورے کے پورے شہروں کو یرغمال بنا کر نظام زندگی مفلوج کر دیتا ہے کیا وہ طاقت کا استعمال ان گروہوں یا جماعتوں کے استحقاق کے زمرے میں آتا ہے یا انکا یہ عمل مکمل طور پر ریاست کے حق پر ڈاکے کی گرفت میں آتا ہے۔ دوسرا سوال میرے اندر کا پاکستانی جو مجھ سے کر رہا ہے وہ طاقت کا وہ بے دریغ استعمال ہے جو ہم اج روز پولیس مقابلوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں جس کی تازہ مثال نقیب الہہ محسود کا قتل ہے۔ ریاست کی تعریف میں ریاست کے جن اداروں کا ذکر ملتا ہے ان میں حکومت جو مقننہ کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے اور جو انتظامیہ کے نمائندوں سول بیوروکریسی کے ذریعے امور مملکت چلاتی ہے کے علاوہ افواج اور عدلیہ کا وجود بھی پایا جاتا ہے۔ قواعد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ کسی بھی ایسی صورتحال میں جہاں ریاست کو چلانے والے طے شدہ قواعد و ضوابط سے انحراف یا بغاوت کا شائبہ تک بھی موجود ہو تو یہ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فوراً اسکا نوٹس لے اور ریاست کی سالمیت کو یقینی بنائے لہذا موجودہ حالات کی روشنی میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے چیف جسٹس سپریم کورٹ جو کچھ دنوں سے اپنے آپکو بابا رحمتے کے نام سے متعارف کروا رہے ہیں سے راقم کی درخواست ہے کہ آئے دن یہ مخصوص گروہ جو اپنے مطالبوں کو منوانے کیلیئے راستے روکنے اور شہر بلاک کرنے کی دھمکی دیتے ہیں اور ریاست کے وہ اہلکار جو legitimate use of force کی خلاف ورزی ہی نہیں اس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں انکے ان اقدامات پر تمام concerns کو بلوا کر اس بات کا پابند کریں کہ یہ لوگ دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا سبب نہ بنئیں اور جب ہم دشمنوں کے خلاف اقوام عالم کی توجہ مبذول کروانا چاہیئں تو ہمیں پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنے کا طعنہ نہ سننا پڑے۔ اگر میرا یہ خط جناب بابا رحمتے کی نظر سے نہ گزرے تو ہے کوئی میرا وکیل دوست جو اس خط کو پٹیشن بنا کر بابا رحمتے کی توجہ اس طرف مبذول کرا سکے۔ کوئی اور یہ کام کرے یا نہ کرے مجھے امید ہے میرے دو دوستوں احسن بھون یا اختر اعوان میں سے کوئی ایک سچا پاکستانی یہ کام ضرور کرے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024