منوبھائی کی وفات کے ساتھ ہی نصف صدی کا زمانہ ختم ہوا۔ کوئی نصف صدی پہلے میری ان سے ’’امروز‘‘ کے دفتر میں پہلی بار ملاقات ہوئی تھی اور آخری ملاقات نوشی گیلانی کے ساتھ ان سے گھر پر ہوئی جہاں ہم ان کی عیادت کے لیے گئے تھے۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے مگر انہوں نے زندگی کے لیے شدید لڑائی کی اور کئی بار دل کے ہسپتال سے واپس ’’سندس فائونڈیشن‘‘ کے دفترمیں پہنچے مگر بیماری اور طویل العمری کا آخری حملہ کامیاب ہوا جس نے انہیں بالآخر کل شام کو میانی صاحب کے قبرستان میں ایک نیا گھر بنانے پر مجبور کر دیا۔ قبر پر راجہ صادق اللہ اور شرجیل انظر کے ساتھ مل کر ’’وزیرآباد‘‘ کی طرف سے پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد میں سوچ رہاتھا کہ لاہور بھی اب عجیب ہو گیا ہے یعنی کوفے کے قریب ہو گیاہے۔ منوبھائی نے بھی اپنی آنکھ کمیٹی والی گلی وزیرآباد میں کھولی اور پھر کئی شہروں میں تعلیم پاتے اور نوکریاں کرتے ہوئے لاہور میں رامے صاحب مرحوم کے زمانے میں ریوازگارڈن میں ٹکے۔ یہ سارا سفر ان کا جدوجہد کا سفر تھا جس میں شرکاء کی تعداد پاکستان کے سارے شہریوں کے برابر تھی وہ ہمیشہ ان کے بارے میں سوچتے تھے اور لکھتے تھے۔ وہ ذہنی طور پر ترقی پسند سوچ کے حامل شخص تھے اور ہر نئی بات کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتے ۔میری کئی نظموں پر انہوں نے کالم لکھے جو میرے لیے ایک اعزاز ہے اور ساری زندگی رہے گا اور ہمیشہ مجھے وزیرآباد کا ایک جواں سال دوست لکھتے جوان سے میری محبت کا عنوان بنا۔
وہ منیر احمد قریشی تھے اور ان کے دادا امام مسجد تھے جبکہ اپنی زندگی کے اخراجات جلد سازی اور کتابت سے پورے کرتے تھے۔ منوبھائی کو شاعری کا چسکہ اپنے دادا کی گود میں بیٹھ کر ہی لگا تھا۔ بعدازاں جب ان کے والد نے کسی بات پر ناراض ہو کر منوبھائی کے سامنے اپنی بیوی اور منو بھائی کی والدہ کو تھپڑ مار دیا تو صدمے کی شدت سے منوبھائی کی گویائی ختم ہو مگر جب بعداز علاج بحال ہوئی تو زبان میں لکنت باقی رہ گئی جو ساری زندگی ان کے ساتھ رہی وہ چونکہ لکنت کا شکار تھے لہٰذا لڑکوں کے ساتھ ان سے کھیلنا کودنا اس لیے بند ہو گیا کہ لڑکے ان کو تنگ کرتے تھے اور ’’منیرا تھتھا‘‘ کہتے تھے مگر لڑکیوں نے ان کو چھوٹے بھائی کی طرح ٹریٹ کیا لہٰذا وہ ساری زندگی عورت کا احترام کرنے پر مجبور رہے کہ ان کی پرورش زیادہ تر لڑکیوں میں ہوئی تھی مگر محبت صرف انہوں نے پہلی بار ’’کوشلیا‘‘ سے کی جو ایک اسٹیشن ماسٹر کی بیٹی تھی کہ منو بھائی کے والد محکمہ ریلوے میں ملازم تھے۔ اس محکمے سے منوبھائی کی محبت بھی فطری تھی کہ ان کا بہت سا وقت والدکی نوکری کے دوران مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر بھی بسر ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ’’بابوٹرین‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ سیریل بھی لکھی جس کی کہانیاں بابو ٹرین میں سفر کرنے والے مسافروں کے گھروں کی کہانیاں تھیں۔ ڈرامہ نگاری ان کی شخصیت کا معتبرحوالہ تھی انہوں نے سونا چاندی، جھوک سیال، جزیرہ، دشت اور عجائب گھر جیسی لازوال سیریل اور طویل دورانیے کے کھیل تحریر کرکے اپنے اس ہنر کو ثابت کیا۔ کالم نگاری انہوں نے تمام عمر کی اور اس کا آغاز بھی ڈرامائی تھا۔ وہ اخبار کی نوکری کرتے تھے تو ایک عورت اپنے بیٹے کی گم شدگی کی رپورٹ لکھانے اخبار کے دفتر آئی ۔منوبھائی ڈیوٹی پر تھے، منو بھائی نے اس عورت سے پوچھا کہ بچے نے کیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے اس نے بتایا کہ اس نے نیلے رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھی اور ساتھ میں ایک ایسا جملہ کہا کہ وہ تو اب تک گندی ہو گئی ہو گی۔ بس اس جملے نے منوبھائی کو کالم نگار بنا دیا اور پھر وہ تمام عمر اس عمر کے شہریوں کے ان کپڑوں کے بارے میں لکھتے رہے جو شام تک گندے ہو جاتے ہیں مگر یہ شامیں ختم نہ ہو سکیں اور منوبھائی ختم ہو گئے۔ منوبھائی ’’یادرفتگاں‘‘ کے ماہر تھے۔ ان کو اپنے بچھڑنے والے دوستوں سے جدائی کا دکھ بیان کرنے کاسلیقہ تھا کہ ایک بار انہوں نے ایک بچھڑے ہوئے دوست پر اتنا خوبصورت کالم لکھا کہ ایک اور دوست نے کہا کہ منوبھائی اگر تم مجھ پر ایسا کالم لکھو تو میں آج ہی اسی وقت مرنے کے لیے تیار ہوں، یہ واقعہ برادرم اصغر ندیم سید نے منوبھائی کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر میرے ساتھ تازہ کیا۔ ایک پوری کتاب ان کی ایسے ہی کالموں پر مشتمل ہے جبکہ شاعری کی دیگر کتب ’’اجے قیامت نہیں آئی‘‘، ’’محبت کی ایک سو ایک نظمیں‘‘ بعد میں شائع ہوئیں۔انہوں نے تراجم بھی خوب کیے اور تمام عمر اعلیٰ ادبی اور صحافتی کام کیا۔ وہ ادیبوں اور صحافیوں کے درمیان ایک مضبوط رشتہ رکھتے تھے اور اس حوالے سے دونوں طبقوں میں محترم تھے۔ حکومت نے بھی ان کو ان کی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔ان کا سیاسی شعور ترقی پسندانہ تھا اس لیے ترقی پسند حلقے ان کی تحریروں کے مداح تھے۔ اس کے علاوہ بھی ہر طبقہ فکرکے لوگ ان کی حساسیت اور حب الوطنی کے قائل تھے۔ ان کا سیاسی رشتہ اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ تھا مگر تمام پارٹیوں کے سنجیدہ محب الوطن حلقے ان کی قدر کرتے تھے، منو بھائی سب کے بھائی تھے۔
ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں دلدار پرویز بھٹی نے جملے بازی کرتے ہوئے ان سے کہا کہ منوبھائی آپ سب کے بھائی ہیں تو کیا آپ کی بیوی محترمہ اعجاز بھی آپ کو منوبھائی ہی کہتی ہیں تو منوبھائی نے جوابی وار کے طور پر کہا کہ نہیں وہ مجھے ’’دلدار‘‘ کہتی ہیں۔ منوبھائی نے محبت کے جذبے کوکئی سطح پر اپنے اندر سمو رکھا تھا مگر وہ تمام سطحیں انسانی تھیں کیونکہ بنیادی طور پر وہ انسانوں سے محبت کے قائل تھے اور اس جذبے کی اس سطح پر ان کا یقین کامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شاعری، ڈرامے اور کالم میں بھی اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں کو موضوع بنایا اور آخری محبت بھی ’’سندس فائونڈیشن‘‘ سے کی جو تھیلیسیمیا جیسی نامراد بیماری کا شکار ہونے والے بچوں کو تازہ اور صاف خون مہیا کرتی ہے۔
منوبھائی ایک پورے عہد کی تمثیلی شخصیت تھے جس کے خدوخال انسانی معاشرے کے خدوخال تھے۔ وہ اپنے تین بھائیوں سے محبت کرنے کے سبب ان کے بھی محبوب تھے کہ وہ سب منوبھائی کو دل و جان سے عزیز تھے۔ ان کے بیٹے جو ان کی واحد نرینہ اولاد ہیں اگرچہ بہت لاڈلے اور نوجوان ہیں مگر ان کا بھی اسی جوانی میں منوبھائی جیسا ہی حال ہے اور وہ چند دن میں ہی منوبھائی کے ہم عمر لگنے لگے ہیں۔ اللہ ان کو صحت سے نوازے اور ان کی توانائیاں بحال کرے۔ منوبھائی کا آخری وقت اپنی اگلی نسل کے ساتھ گزرا اور وہ اپنی اگلی نسل کی کامیابیوں کے اسی طرح آرزومند رہے جیسے وہ اس قوم کی اگلی نسلوں کی فلاح و بہبود کے قائل تھے۔منوبھائی کو اسٹریچر سے چارپائی اور چارپائی سے قبر میں اتارتے ہوئے یوں لگا جیسے ایک یگ بیتا اور اپنے پیچھے کئی زمانوں کا تاوان چھوڑ گیا ہے کہ ملکی حالات کے حوالے سے وہ آخری وقت میں انتہائی دلبرداشتہ تھے اور دل برداشتگی نے بالآخر ان پر بیماری کے آخری حملے کو کامیابی سے ہمکنار کیا او روہ ہم میں نہ رہے۔ اختر حسین جعفری کی شاعری منوبھائی کو بہت پسند تھی چنانچہ منوبھائی کی رحلت پر اختر حسین جعفری کی لائنیں فوراً ذہن میں جاگیں اور ان کی لحد پر دعا کرتے ہوئے میانی صاحب کے درختوں کو دیکھ کر بے اختیار زبان پر آ گیا کہ:
تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے